کشمیر پر بھارتی تسلط اور آذربائیجان کی فتح

بے لوث حمایت اور تائید سے پاکستان اور آذربائیجان کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے

بدھ 9 دسمبر 2020

kashmir per baharti tasalat or azerbaijan ki fatah
محمد عبداللہ حمید گل
اُم مسلمہ کے لئے بڑی خوشخبری ہے کہ آخر کار آذربائیجان آرمینیا سے جنگ میں فتح یاب ہو گیا اور کاراباخ سمیت شوشا کا علاقہ بھی بازیاب کروا لیا جس پر پچھلے تیس سالوں سے آرمینیا قابض تھا۔تین دہائیوں بعد شوشا کی مسجد میں اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے پر دشمنان اسلام میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔معرکہ حق وباطل میں مسلم ملک آذربائیجان کی جیت سے ثابت ہو گیا کہ مسلمان اگر اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہیں تو ان کے سامنے یہود و ہنود کی مجتمع طاقتیں بھی ریت کی دیوار سے زیادہ کچھ نہیں۔

جس طرح افغانستان میں جدید ٹیکنالوجی سے نہ آشنا قوت ایمانی کے جذبے سے لبریز افغان طالبان نے خود سے کئی گنا بڑی منظم عسکری قوتوں روس و امریکہ کو کوپسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

سوال یہ ہے کہ گزشتہ 73 سالوں سے کشمیر پر ہمیں مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر کیا انصاف ملا؟۔نتیجتاً دنیا نے بھارت کو کشمیر میں بربریت وسفاکیت کی کھلی چھٹی دے دی کہ اپنی من مرضی کرتا پھرے اور مذموم عزائم پر کار بند رہے کسی جانب سے بھی دباؤ نہیں ڈالا گیا کہ وہاں سے کرفیو ہی ہٹا دیا جائے۔


 بلکہ ہر گزرتے روز کشمیر پر ہونے والے تشدد میں خطر ناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔نگورنو کاراباخ کی طرح مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھی اقوام متحدہ کی قرار دادیں موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کروانے میں اقوام متحدہ ناکام ہے۔پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ اب اقوام متحدہ کی طرف دیکھنے کے بجائے جہاد کا علان کرتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کی آزادی کے لئے ایک جامع حکمت عملی تشکیل دے۔

کیا ہم آذربائیجان سے بھی کمزور ہیں؟۔ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود غیروں کے رحم و کرم پر ہیں۔یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آزادی قربانیوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔آذربائیجان نے جس طرح قابض علاقوں کو آرمینیا سے آزاد کروانے کیلئے جو جدوجہد کی اور اپنی فوجی طاقت کے ذریعہ اسے حاصل کر لیا،دشمنان اسلام میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔کیونکہ ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی تائید و حمایت پر کئی عالمی ممالک خصوصی طور پر یورپ نے ترکی کے خلاف کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن ترک صدر رجب طیب اردغان جس طرح ایک مرد مجاہد کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہے اسی کا نتیجہ ہے کہ روس کو بھی گھٹنے ٹیکنا پڑے اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کو اہمیت دی تاکہ آرمینیا کو مزید جنگی نقصانات سے بچایا جا سکے۔


دراصل روس کو یہ گمان تھا کہ آذربائیجان اپنے نسبتاً طاقتور مخالف آرمینیا کے ہاتھوں ماضی کے تناظر میں شکست تسلیم کرے گا اور ترکی یونان کے ساتھ جاری کشیدگی کی وجہ سے آذربائیجان کی عملاً کوئی مدد نہیں کر سکے گا لیکن ترکی نے آذربائیجان کا ساتھ دے کر تمام مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا بلکہ آرمینیا سمیت روس کو بھی ایک ایسے امن معاہدے پر مجبور کر دیا جس سے خطے میں ترکی مخالف قوتوں کے علاوہ یونان فرانس جو ترکی کی مسلسل جنگ کی دھمکیاں دے رہے تھے کو بھی ایک واضح پیغام دے دیا ہے کہ ترکی یورپ ”بیمار مرد“ نہیں بلکہ اسے خطے میں صدر طیب اردغان کی جرات مندانہ قیادت میں ایک نمایاں اور برتر مقام بھی حاصل ہو چکا ہے۔

ترکی کی طرح پاکستان نے بھی ہمیشہ کی طرح آذربائیجان کا ساتھ دیا اور آرمینیا کے اقدام کے خلاف باقاعدہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں مذمتی قرار دادیں بھی منظور ہوئیں۔ادھر آرمینیا کی عوام نے حکومت اور فوج کی نا اہلی اور جنگ میں ناکامی پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے روسی حکومتی صدر دفتر پر دھاوا بول دیا اور احتجاج کیا۔آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے اپنے خطاب میں کہا کہ جنگ بندی معاہدہ آرمینیا کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز ہے جس نے آرمینیائی حکومت کو تقریباً ڈیڑھ ماہ سے زائد معرکہ آرائی کے بعد دستخط کرنے پر مجبور کر دیا۔


سوویت یونین کے انہدام کے بعد کئی نئی ریاستیں وجود میں آئیں جن میں آرمینیا اور آذربائیجان بھی شامل تھے ان ممالک کے درمیان تنازع نوے کی دہائی میں شروع ہوا جب آرمینیا نے آذربائیجان کے علاقے نگورنو کاراباخ پر قبضہ کیا،اس علاقہ کی آبادی مسلمان تھی جن پر آرمینین فوج کے ظلم وستم کی وجہ سے نہ صرف بیشتر مقامی آبادی کو ہجرت کرنا پڑی بلکہ خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔

سفاک آرمینیا آرمی نے 6000 نہتے مسلمانوں کو ایک ہی دن میں گاجر مولی کی طرح کاٹا۔آذربائیجان مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں 96 فیصد مسلمان رہتے ہیں جن میں 85 فیصد شیعہ مسلمان ہیں اور 15 فیصد سنی آباد ہیں۔آرمینیا عیسائی اکثریتی ملک ہے جس میں 95 فیصد آبادی عیسائی آباد ہیں جو روس کے زیر قبضہ رہتے ہوئے روس کے ساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔

تیل کے ذخائر سے مالا مال آذربائیجان بحیرہ کیسپیئن کے ایک کنارے پر مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے بیچ واقع ہے۔اس کے شمال میں روس، جنوب میں ایران اور مغرب میں آرمینیا موجود ہیں۔اگر آذربائیجان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو 19 ویں صدی میں آج کے دور کا آذربائیجان فارس اور روسی سلطنت میں بٹا ہوا تھا۔اسی صدی کے وسط میں یہاں دنیا کا پہلا تیل کا ذخیرہ دریافت ہوا تھا۔

1918ء میں آذربائیجان نے خود کو ایک آزاد ملک قرار دیا لیکن پھر سوویت فوج نے اس میں مداخلت کی اور یہ 1991ء تک سوویت یونین کا حصہ رہا ہے۔1991ء میں جب آذربائیجان سوویت یونین سے آزاد ہوا تو ترکی،پاکستان،امریکہ اور ایران وہ ابتدائی ممالک تھے جنہوں نے اس کے ساتھ سفارتی سطح پر تعلقات قائم کیے۔
آذربائیجان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ترکی جبکہ دوسرا پاکستان تھا جبکہ اسرائیل کی طرح پاکستان نے آج تک آرمینیا کو بھی بطور ریاست تسلیم نہیں کیا ہوا۔

نگورنو کاراباخ باضابطہ طور پر جمہوریہ آذربائیجان کا حصہ ہے اور دارالحکومت باکو سے 270 کلو میٹر (170میل)مغرب میں اور آرمیینیا کی سرحد کے قریب واقع ہے۔1988ء سے 1994ء تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران آرمینیا نے نگورنو کاراباخ سمیت سات علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1994ء میں جنگ بندی تو ہو گئی تاہم کوئی امن معاہدہ طے نہیں پایا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظور کردہ قرار داد میں آرمینیا کی فورسز سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آذربائیجان کے مقبوضہ علاقوں کو فی الفور خالی کر دیا۔اس قرار داد میں اس جنگ زدہ علاقے پر 2005ء میں یو این اور فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ بھی پیش کی گئی جس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ یہ علاقہ آذربائیجان کا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

kashmir per baharti tasalat or azerbaijan ki fatah is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.