مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کی سازش

دفعہ 35A کے خاتمے کی تیاریاں ریاست میں علیحدہ مسلم اکثریتی شناخت خطرے میں:

جمعرات 24 اگست 2017

Kuch khass Maqboza Kashmir ko bharat ka Atoot ang bnany ki sazish
رابعہ عظمت:
مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے بزور شمشیر اپنا ناجائر تسلط جمارکھا ہے لیکن بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت اس کی علیحدہ حیثیت قائم ہے جس کی رُو سے بھارتی حکومت اسے ضم کرکے اپنے صوبے کا درجہ نہیں سے سکتی لیکن جب سے کشمیر میں بی جے پی کی اقتدار میں شراکت داری ہوئی ہے بھگوا سرکار نے مذکورہ دفعہ 375 میں نقب لگانا شروع کردی ہے تاکہ ریاست میں الگ مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کر دیا جائے۔

اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے کشمیری حریت قیادت کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر جیل بھیجا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف گڈز اینڈ سروسز ٹیکس بل کی منظوری سے جمو وکشمیر کی مالی خود مختاری کو ختم کردیا ہے۔ بل کی منظوری کے بعد اب مودی حکومت کا اگلا ہدف آئین کی شق 35A کو معطل کروانا ہے جس کے لئے بھارتی سپریم کورٹ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

حریت قیادت کے مطابق 35A کے باعث کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ کشمیر میں جائیداد خرید کر یہاں مستقل باشندہ بننے کا اہل نہیں ہوسکتا اور اب باقاعدہ ایک سازش کے تحت اس دفعہ کو ختم کرکے غیر ریاستی باشندوں کو کشمیر میں بسا کر مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب بگاڑنے اور مسلم اکثریتی شناخت کو تبدیل کیا جارہا ہے۔

جبکہ آرٹیکل 370 کی روسے حاصل محدود خود مختاری کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کسی غیر کشمیری حتی کہ کسی فوجی افسر کو بھی نہ تو آباد کیا جا سکیا ہے اور نہ ہی اسے جائیداد خریدنے کی اجازت ہوگی۔  بھارتی وزیراعظم مودی اور ان کی جماعت کے بعض رہنماؤں نے الیکشن سے پہلے او ر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا واضح عندیہ دیا تھا جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں مستقلاََ ضم کرنے کی راہ ہموار کرنا تھی۔

2014ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کے نریندر مودی کشمیر کو ایشو بنا کر انتہا پسند ہندوؤں کے ووٹ لیکر اقتدار میں آئے۔ انتخابات کے دوران ان کا نعرہ تھا کہ وہ اقتدار میںآ کر آئین کی دفعہ 370 میں ترمیم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت (سپیشل اسٹیٹس)اور محدودخود مختاری خرم کرکے اسے بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کی راہ میں موجود رکاوٹیں دور کریں گے۔

مگر مودی تمام وسائل جھونک کر بھی اتنی نشستیں نہیں لے سکا کہ کشمیر میں تنہا حکومت بنا سکے۔  کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی حالات کا ادراک کرتے ہوئے حکومت کو خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جموں وکشمیر کے خصوصی درجے یعنی دفعہ 370،35A کو ختم کیا گیا یا س کو کمزورکرنے کی کوشش کی گئی تو ریاست میں ترنگے کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

ریاست کا سابق وزیراعظم اور کئی مرتبہ منتخب ہوئے ، ممبر پارلیمنٹ فاروق عبداللہ نے مرکزی سرکار کو براہ راست انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر دفعہ 370 یا سٹیٹ سجیکٹ قانون کے ساتھ کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ریاست جموں وکشمیر کے تینوں حصوں میں نہ صرف طوفان آئے گا بلکہ 2008ء امرناتھ ایجی ٹیشن سے بھی زیادہ بڑی بغاوت چھیڑ جائے گی۔ آرٹیکل 35A کو 1954ء میں اس وقت کے صدرہند ڈاکٹر راجندرپرساد کے ذریعے جاری کردہ ایک ریفرنس کے تحت لاگو کیا گیا ۔

یہ آرٹیکل ریاستی اسمبلی کو خصوصی اختیارات تفویض کرتا ہے اور یہاں کے اصل باشندوں کے حقوق کو واضح کرتا ہے۔ آرٹیکل35A کے خاتمے سے دفعہ 370 کی اہمیت و افادیت بھی ختم ہوجائے گی اور پھر باآسانی کشمیر کے تمام معاملات میں حکومت ہند برائے ریاست مداخلت کرسکتی ہے۔ بی جے پی کے لیکشن ایجنڈے میں دفعہ370 اور 35Aکا خاتمہ ہمیشہ سے ہی سرفہرست رہا ہے یہ جماعت دفعہ 370 کو ختم کرکے ریاست کی خصوصی حیثیت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکاراپاکر ریاست بھارت کے ساتھ انضمام کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔

کٹھ پتلی محبوبہ مفتی سے الحاق کرتے وقت بی جے پی نے ہندو مہاجر شرونارتھیوں کی فلاح وبہبود کے نام پر ہندو مہاجر شرنارتھیوں کو مستقل شہریت کی سندیں عطا کی ہیں اور اب وہ ریاست کے اصل رہائشی تصور کئے جائیں گے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔  جس دن سے پی ڈی بی اور بی جے پی اتحاد برسراقتدار آیا ہے محبوبہ مفتی کی حکومت ایسے مسلسل اقدامات کررہی ہے جس کا براہ راست نشانہ آئین کی دفعہ 370 اور 35A ہی ہیں۔

شرنارتھیوں کو اسناد کی فراہمی پہلاوار ہے۔ دسمبر 2015ء میں مفتی محمد سعید کی سربراہی میں ریاستی کابینہ نے مرکزی حکومت کی جانب سے تیار کردہ نیشنل فورڈ سکیورٹی ایکٹ (NFSA )کے ریاست میں نفاد کی منظوری دی۔ ہندوستان کے وزیر دفاع ارون جیٹلی کا ٹیکس سروسز بل لاگو ہونے پر کہنا ہے کہ کشمیر کا بھارت سے تعلق مضبوط ہوگیا ہے۔   The Callection of Statistics Amend Ment Bill 2017 ابھی حال ہی میں بھارتی راجیہ سبھانے پاس کیا ہے جس کے تحت بھارت سرکار کو اب یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے وہ جموں کشمیر میں تمام سروے کرکے اعداوشمار حاصل کرسکتے ہیں ۔

حالانکہ دانشوروں کے مطابق دفعہ 370 کی موجودگی میں بھارت سرکار کو اس بل کا دائرہ کا رریاست تک بڑھانے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ دہلی کی تفتیش ایجنسی این آئی اے کشمیر کی حریت قیادت کو حراست میں لیکر اانپر انڈین پینل کو ڈکے تحت مقدمہ درج کررہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست خصوصی پوزیشن کی موجودگی میں تفتیشی ایجنسی کی کارکردگی غیر آئینی ہے۔

کشمیر کا آئین (خصوصی حیثیت)14 مئی1954ء کو ہندوستان کے صدر کے آئین ہندو پر دستخط سے بنا تھا۔ 1951ء میں بننے والی پہلی مقبوضہ کشمیر اسمبلی نے ہندوستان کے آئین کا کشمیر سے متعلق حصہ مرتب کیا تھا۔ ہندوستان کے آئین کا تیسرا حصہ مقبوضہ کشمیر کا ٓئین کہلاتا ہے۔ کشمیر کی پہلی بننے والی اسمبلی نے بھارت کی طرف سے دیئے گئے آئین پر غورو خوض کرنے کیلئے ایک کمیٹی بنائی تھی جس کو ڈرافٹ کمیٹی کا نام دیا گیا۔

کمیٹی نے ہندوستان کی طرف سے دیئے گئے آئین کا مطالعہ کرکے کچھ نئی دفعات آئین میں شامل کیں اور بعض کو کالعدم قراردے دیا کچھ کو اسی طرح رہنے دیا اور بعض میں ترمیم کی۔ تیاری کے بعد یہ آئین منظوری کے لئے 11 فروری 1954ء کو مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں پیش ہوا جس کو14 فروری 1954ء کو منظوری ملی اور صدر ہندوستان کو منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔

جس پر صدر نے بغیر کوئی ترمیم کئے 14 مئی 1954ء کو دستخط کئے تھے۔ جس کے بعد وہ باضابطہ آئین ہندوستان کا حصہ بن گیا۔ 35A اور 370 ہندوستان کی آنکھ میں بری طرح کھٹکتی رہی ہیں اور ان کو ختم کرنے کیلئے کئی مرتبہ ہندوستان کی عدالت عظمیٰ اور پارلیمنٹ کا سہارالینے کی کوشش کی گئی لیکن ناکامی ہوئی۔ حالیہ سالوں میں پہلی کوشش 19 اگست2014ء کو ہندو فرقہ پرست جماعت آرایس ایس کے کشمیر کے حوالے سے بنائے گئے ٹھنک ٹینک جموں و کشمیر سٹڈی سنٹر دہلی نے ایک غیر سرکاری تنظیم We the People نے بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کے ساتھ غیر ریاستی افراد کو مستقل سکونتی سند اور ریاستی باشندوں کے برابر حقوق دینے کی بات کی۔

اگر ایسا ہوا تو ہندوستان کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ سے زیادہ ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد 86 لاکھ ہے ۔ ہندوؤں کی 35 لاکھ، سکھوں کی ڈھائی لاکھ اور بودھوں کی ایک لاکھ سے زیادہ ہے جوکم ہوتی چلی جائیگی اور ہندوستانی رائے شماری کے لئے راضی ہوگیا تو کیا ہوگا؟ یہ تشویش ناک ہے۔ جموں وکشمیر میں مسلم آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کو تبدیل کرنے کیلئے مختلف حیلوں بہانوں سے غیر کشمیری ہندوؤں کی وادی میں آباد کیا جارہا ہے اور کہیں فوجی چھاؤ نیوں کے قیام کے نام پر بھارتی فوجیوں کی بھی بسایا جارہا ہے جس پر کشمیری مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔

بھارتی حکومت کایہ عمل نہ صرف بھارت کے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو دی گئی اس خصوصی حیثیت سے انکار کے مترادف ہے بلکہ اس قانون کی بھی خلاف ورزی ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوجا تا مقبوضہ وادی میں کسی غیر کشمیری کو نہ تو زمین الاٹ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی مستقل رہائش کیلئے ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ ہی دیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مہاجرین کی آباد کاری کا تعلق ہے تو انہیں تقسیم ہند کے فارمولہ کے تحت کشمیر کے علاوہ کہیں بھی بسایا جا سکتا ہے کیونکہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور ابھی اسکا حل تلاش کیا جانا باقی ہے۔

بی جے پی اور اسکی مقامی حامی قوتیں وادی میں ریفرنڈم کروانے سے پہلے حالات کو اپنے حق میں سازگار بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ غیر کشمیری ہندو مہاجرین کی مقبوضہ کشمیر میںآ باد کاری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریحاََ خلاف ورزی ہے کٹھ پتلی حکومت مسلم اکثریت کے حقوق کوملیامیٹ کرنے اور کشمیریوں کے ساتھ غداری کے تمام ریکارڈ توڑنے پر تلی ہوئی ہے۔

مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جسے بھارت نے خود متنازع تسلیم کیاتھا اس کا آئین اسے متنازعہ قراردیتا ہے۔ جبکہ بھارت مسلسل اسی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ وادی میں آبادی کے تناسب کو اس طرح تبدیل کردے کہ وہاں رائے شماری کو اپنے حق میں کیا جاسکے۔ بی جے پی اوراس کے رہنما اپنے بیانات اور عملی اقدامات کے ذریعے ریاست کے مسلم اکثریتی فرقہ کے سنیوں میں میخ گاڑھنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے۔

مسلم آبادی کو مزید احساس محرومی میں مبتلا رکھنے کے لئے جموں و کشمیر کی تاریخ بھی مسخ کی جارہی ہے تاکہ یہ باور کروایا جائے کہ ریاست کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمران تھے۔ اکھنور میں جیاپوتا کے مقام پر کئی برسوں سے مہاراجہ گلاب سنگھ کا جنم دن بھی منایا جاتا ہے۔ ان کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کے جانشین راجوں کو تاریخ کا ہیرو بنا کر پیش کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Kuch khass Maqboza Kashmir ko bharat ka Atoot ang bnany ki sazish is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 August 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.