لاہور میں ”وزیراعظم شہباز شریف “کے پمفلٹ کس نے تقسیم کرائے؟

انقلاب پاکستان کی بجائے ”جاتی امرا“ میں آتا محسوس ہورہا ہے۔۔۔ بیگم کلثوم نواز کو نون لیگ کا سربراہ اور وزیراعظم بنانے کی تیاری

پیر 21 اگست 2017

Lahore Main Wazir e Azam Shehbaz Sharif K Pumphlet Kis Ne Taqseem Karaye
محمد انیس الرحمن:
زمانہ قدیم میں ایک عرب کہاوت ہوا کرتی تھی کہ”وقت خراب ہو تو اونٹ پر بیٹھے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے“اس وقت بعینہ یہی صورتحال سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ہے وہ جو قدم اٹھاتے ہیں وہ الٹا پڑرہا ہے لیکن دستر خوانی گروہ انہیں مسلسل نامعلوم منزل کی جانب دوڑائے جارہا ہے۔ انہیں بار بار یہی باور کرایا جارہا ہے کہ ان میں ایک ”انقلابی لیڈر“ کے تمام اوصاف پائے جاتے ہیں۔

حالانکہ کہاں انقلاب اور کہاں میاں صاحب ، نااہلی کا فیصلہ سنتے ہی وہ بجائے لاہور کی جانب نکلتے وہ مری پہنچ گئے اور وہاں اپنے روایتی درباریوں کا دربار سجا لیا جو انہیں مسلسل ریاستی اداروں سے لڑجانے کا مشورہ دیتے رہے۔ دوسرے انداز میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ میاں صاحب جو کچھ سننا چاہتے تھے ان کے درباری وہی کچھ انہیں سناتے رہے۔

(جاری ہے)

ان کو بتایا گیا کہ جی ٹی روڈ سے واپس لاہور جاتے ہوئے ان کا وہ والہانہ استقبال ہوگا کہ ریاستی ادارے سہم جائیں گے اور ممکن ہے کہ سپریم کورٹ نااہلی کا فیصلہ بھی واپس لینے پر مجبور ہوجائے۔

اسلام آباد اور پنڈی کی تقریبا تمام سیٹیں نون لیگ کے پاس ہیں لیکن یہاں ایم این اے اور ایم پی اے کتنے افراد نکالنے میں کامیاب ہوئے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ جبکہ پنجاب کی صوبائی حکومت کے علاوہ آزاد کشمیر کی ریاستی مشینری پوری قوت کے ساتھ ان کے ساتھ تھی ان صوبائی حکومتوں نے ہزاروں پولیس والوں کو سول کپڑوں میں ”ڈیوٹی“ پر لگا رکھا تھا۔

پنڈی سے منتخب ایم این اے حنیف عباسی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہیں جب غصے سے پوچھا گیا کہ ”اوئے کہاں ہیں تیرے دو لاکھ بندے“تو ان کے پاس سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ انہیں پنڈی سے آگے جانے کی ہمت ہی نہ ہوئی ۔ چوہدری نثار کے قافلے سے الگ ہوجانے کو تنقید کا نشانہ بنانے والے احسن اقبال اور نواز شریف کے ڈائی ہارٹ خواجہ آصف کی غیر حاضری کو معلوم نہیں کیوں نظر انداز کرگئے۔

۔۔ اس ”استقبال“ کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز کی کل آبادی اگر کم و بیش کروڑ ہے تو راولپنڈی سے لاہور تک دراز جی ٹی روڈ کے گرد جو بڑے چھوٹے شہرا ور قصبے آباد ہیں ان میں تقریبا کل آبادی میں سے آٹھ کروڑ یہاں مقیم ہے لیکن میاں صاحب کے استقبال کے لئے کتنے لوگ نکلے؟ وہ سب کے سامنے ہے۔ بہر حال تمام تر خطرات کے باوجود میاں صاحب کے جی ٹی روڈ سے سفر میں ریاستی اداروں نے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔

بلکہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ جان بوجھ کر انہیں جی ٹی روڈ سے جانے دیا گیا تاکہ وہ اپنی ”عوامی مقبولیت“ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں رک کر انہوں نے ”انقلابی تقریریں“ کرنی تھیں اس حوالے سے ان کے باطن میں چھپی ہوئی ہر بات پوری طرح عیاں ہو جائے اور ایسا ہی ہوا ، گجر خاں سے نکلنے کے بعد انہوں نے لاہور پہنچنے میں وہ تیزی دکھائی کہ راستے میں ایک معصوم بچے کو کچلنے کے علاوہ ان کے قافلے کی گاڑیوں نے دیگر بہت سے لوگوں کو روند ڈالا لیکن کسی نے پیچھے مڑکر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔

لاہور پہنچ کرجب انہوں نے اپنے استقبال کی معراج دیکھی تو ان کے باطن سے ”آئین نو“کی تشکیل اور انقلاب کے لئے عوام سے ساتھ نبھانے کی بات برآمد ہوئی۔ یہ سب کچھ ایسی صورتحال میں ہورہا تھا کہ داتا دربار اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ایسے پمفلٹ بڑی تعداد میں تقسیم ہورہے تھے جن پر ” وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز“ کے نعرے لکھے ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف جلسے میں اس انداز میں موجود تھے جیسے وہ مجبوری اور دباؤ کے تحت یہاں آئے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسٹیج سے تقریر کے لئے ان کا نام پکار جارہا تھا تو وہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ساتھ والی کرسی پر براجمان تھے انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنا نام نہ لینے کے لئے دو ایک مرتبہ اشارہ بھی کیا اور آخر میں تقریر بھی کی تو انتہائی مجبوری میں۔

ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ جس وقت میاں نواز شریف نے عبوری وزیراعظم کے لئے خاقان عباسی کا نام منتخب کیا تھا تو ساتھ ہی اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے حوالے سے یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ مستقل وزیراعظم وہ ہوں گے لیکن ذرائع کا کہنا تھا کہ شہباز شریف پنجاب پر سے کسی طور بھی اپنی مضبوط گرفت چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ان کی خواہش تھی کہ اگر وہ مرکز میں آتے ہیں تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے پاس ہوکیونکہ ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ کے طور پر وہ پہلے ہی صوبے کے معاملات چلا رہے ہیں۔

لیکن مریم نواز، میاں صاحب اور بیگم صاحبہ شہباز شریف کو اتنی اسپیس دینے کے لئے تیار نہیں تھے جہاں سے ایک بڑی دراڑ نون لیگ میں روزاول سے پڑگئی۔ جبکہ چوہدری نثار نے اسلام آباد میں ہی یہ بیان دے دیا تھا کہ نون لیگ کی 99 فیصد قیادت اس قافلے میں شامل نہیں ۔ یہ صرف ایک بیان نہیں بلکہ چوہدری نثار کی جانب سے نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے جس کا اندازہ اب آنے والے دنوں میں خود میاں صاحب کو بھی ہونے جارہا ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے حواریوں نے انہیں جس راستے پر ڈال دیا ہے اب وہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ میاں صاحب نے آئین نو کی بات تو کردی ہے لیکن اس آئین کی منظوری وہ کہاں سے لیں گے؟ اور پھر نئے انتخابات۔۔۔ لیکن وہ کیسے ہوں گے ابھی تک مردم شماری کا مرحلہ اور نتائج مکمل نہیں ہوسکے ہیں اور نہ ہی نئی حلقہ بندیوں کی نوبت آئی ہے۔۔ اس کے علاوہ ذرائع اس جانب بھی اشار ہ کررہے ہیں کہ اب میاں صاحب کے گرد موجود ٹولہ انہیں باور کرا رہا ہے کہ خاقان عباسی اگر مزید کچھ دیر اور عبوری وزارت عظمی کے عہدے پر رہا رتو یہ ”پکا“ہوجائے گا اس لئے جلدی کی جائے ۔

ویسے بھی شاہد خاقان عباسی نے جس تیزی کے ساتھ پاکستان کی معیشت کا بیڑا غرق کرنے والے اسحاق ڈار کو اقتصادی رابطہ کمیٹی سے الگ کرکے یہ عہدہ اپنی جیب میں ڈال لیا ہے اس نے نواز شریف سمیت نون لیگ کے وزرا کے مخصوص ٹولے کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کی ناں کے بعد بیگم کلثوم نواز کو حلقہ این اے 120 سے میاں صاحب کی نشست سے انتخاب لڑایا جارہا ہے تاکہ انہیں خاقان عباسی کے بعد مستقل وزیراعظم بنایا جائے ، اس کے ساتھ ساتھ نون لیگ کی سربراہی بھی انہیں ہی سونپی جائے کیوں کہ میاں صاحب اپنے چھوٹے بھائی پر کسی طور بھی بھروسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

اگر بیگم صاحبہ حلقہ این اے 120 سے انتخاب جیت جاتی ہیں اور وزیراعظم ہاؤس پہنچ جاتی ہین تو پس پردہ وہ بڑے میاں صاحب ہی ”مرداول“ کے طور پر معاملات چلانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی شکل میں مسلم لیگ (ش)ک فعال ہوجانے سے حلقہ این اے 120 سے نون لیگ کو خاصی مشکل پیش آسکتی ہے۔۔۔ یہ وہ صورتحال ہے جس میں میاں صاحب اب عوام کی مدد سے انقلاب برپا کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں۔

معلوم نہیں انہیں یہ ایجنڈہ کس نے دیا ہے یہ اندر کے حواریوں کی پیداوار ہے یا ”میثاق جمہوریت“کی طرح باہر ڈرافٹ کیا گیا ہے۔۔۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ تین دہائیوں تک مختلف شکلوں میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے کبھی انقلاب نہیں لا سکتے۔ میاں صاحب جی ٹی روڈپر سفر کے دوران بار بار لوگوں کو سناتے رہے”مجھے کیوں نکالا گیا“یہ سوال ایسا انہوں نے اپنے وکیلوں پر لوٹا دیئے، وہ انہیں یہ نہ سمجھا سکے کے عدالتہ فیصلے کامطلب کیا ہے تو عام عوام بیچاری کیسے سمجھے کہ میاں صاحب کو کیوں نکالا گیا ہے یہ سوال تو میاں صاحب کو عوام کی بجائے ان وکیلوں سے کرنا چاہیے جن کے بینک اکاؤنٹس اچانک آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔

دوسرا جس دھڑلے سے میاں صاحب اور ان کے حواری راستے بھرتوہین عدالت کرتے رہے اور ججوں کے ساتھ ساتھ اشاروں میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب بھی انگلی اٹھاتے رہے تو انہیں سمجھنا چاہیے کہ مکافات عمل کے اس چکر میں اگر اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہوتی تو کیا میاں صاحب کا سیاسی باب بند کردینے کے لئے ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اور چوہدری نثار کافی نہ تھے۔

۔۔ بنیادی طور پر میاں صاحب چاہتے تھے کے فوج یا عدلیہ کی جانب سے انہیں گرفتار کیا جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو ”شہید جمہوریت“ ثابت کرسکیں اور پاکستان کے اندر اور باہر سے ہمدردیاں سمیٹ سکیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا،انہیں کھل کرکھیلنے کا موقع فراہم کردیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح عدالت عظمیٰ نے انہیں اپنی صفائی کے لئے بھرپور وقت فراہم کیا تھا۔

اب چند دنوں بعد ریفرنس کھلنے والے ہیں جس کے بعد فوراََ ای سی ایل میں متعلقہ افراد کا نام ڈالے جائیں گے اورگرفتاریاں عمل میں آئیں گی۔ وطن عزیز کی قریبی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ذوالفقار علی بھٹو جیسے زیرک سیاستدان نے جب مخالفت کی ہوا چلنے پر عوامی قوت کا مظاہرہ کیا تھا تو وہ بھی ان کے کسی کام نہ آسکا تھا کیونکہ عوامی قوت کے مظاہرے کامیاب تو ہوجاتے ہیں لیکن ان کے بعد حالات کو کاندھا دینے کے لئے عوام کبھی باہر نہیں نکلتے اسی لئے ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی مخلص رفیق نے میاں صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ جی ٹی روڈ سے نہ جائیں کیونکہ اگریہ شوکامیاب بھی ہوگیا تو بات صرف شوتک رہے گی بعد میں پیدا ہونے والے حالات آپ سنبھال نہیں سکیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب نے ایک لمحے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ہونے والی ریلی کے خلاف رٹ پر محفوظ فیصلے کا انتظار کیا تھا اور یہی وجہ ریلی کی ابتدا میں تاخیر کا سبب بنی تھی کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ ریلی کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو اسے عدالتی فیصلہ کہہ کرملتوی کردیا جائے لیکن پھر وہی کم بختی کہ جب وقت خراب ہوتو کیا کیا جائے۔

۔۔۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اس ریلی کے خلاف دائر رٹ مسترد کردی۔ اب مشکل یہ ہے کہ میاں صاحب کے لئے ملک میں انقلاب برپا کرنا تو نا ممکنات میں سے ہے البتہ جاتی عمرہ میں انقلاب پوری طرح انگڑائیاں لیتا محسوس ہورہا ہے جس کی ابتدا شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی کے ٹوئیٹس سے ہوچکی تھی۔ اس کے بعد نون لیگ کی حقیقی قیادت کا منظر سے غائب ہوجانا اس بات کی گواہی ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ سوائے مشرف لیگ کے ترکے کے کوئی نہیں ، انہیں میں سے زیادہ تر ریلی کے دوران دھمالیں ڈالتے رہے۔

بڑے میاں صاحب کے سیاسی ترکے کی وارث اس وقت وہ شخصیات ہی نظر آرہی ایک بیگم صاحبہ محترمہ کلثوم نواز اور دوسری ان کی صاحبزادی مریم نواز صاحبہ لیکن اس وراثت کے حق کو استعمال کا دارومدار بھی ”ڈبہ نمبر 10“ میں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ڈبے سے کیا نکلتا ہے۔۔۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس میں ایسے ناقابل تردید قسم کے معاملات ہیں کہ پورا شریف خاندان اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ میاں صاحب لاہور تو آچکے ہیں لیکن اب ڈاکٹر طاہرالقادری اور کی تحریک قصاص کی طلب گار ہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Lahore Main Wazir e Azam Shehbaz Sharif K Pumphlet Kis Ne Taqseem Karaye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.