مائیں دوائی سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں بابو جی!

راؤ انیل الرحمن ہائی سٹریٹ ساہیوال پر موٹر سائیکل کو پنکچر لگواتے ہوئے میں فیصلہ کر چکا تھا کہ اس ہفتے بھی اپنے گھر واپس کبیروالا نہ ہی جاوٴں تو بہتر ہے،دیر تو ویسے بھی ہو چکی تھی اور جہاں پچھلے تین ہفتے گزر گئے ہیں یہ بھی گزار ہی لوں تو گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک ہی بار چلاجاؤں گا۔

منگل 23 مئی 2017

Maaen Dawai Se Kahan Se Theek Hoti Hain Babu Ji
راؤ انیل الرحمن ہائی سٹریٹ ساہیوال پر موٹر سائیکل کو پنکچر لگواتے ہوئے میں فیصلہ کر چکا تھا کہ اس ہفتے بھی اپنے گھر واپس کبیروالا نہ ہی جاوٴں تو بہتر ہے،دیر تو ویسے بھی ہو چکی تھی اور جہاں پچھلے تین ہفتے گزر گئے ہیں یہ بھی گزار ہی لوں تو گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک ہی بار چلاجاؤں گا۔اس سوچ بچار روڈ پر کھڑے میں نے پندرہ سولہ سال کے ایک نوجواں کو اپنی طرف متوجہ پایا۔

وہ عجیب سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا،جیسے کو بات کرنا چاہ رہا ہو۔لیکن رش کی وجہ سے نہیں کر پا رہا تھا۔جب پنکچر لگ گیا تو میں نے دکاندار کو 100 کا نوٹ دیا اس نے 20 روپے کاٹ کر باقی مجھے واپس کردیے۔میں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر جونہی واپس شہر کی طرف مڑنے لگا تو وہ لڑکاجلدی سے میرے پاس آکر کہنے لگا”بھائی جان میں گھر سے مزدوری کرنے آیا تھا،آج دیہاڑی نہیں لگی آپ مجھے واپسی کا کرایہ 20 روپے دے دیں گے“میں نے ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی ،سادہ سا لباس،ماتھے پر تیل سے چپکے ہوئے بال،پاؤں میں سیمنٹ بھرا جوتا۔

(جاری ہے)

مجھے وہ سچا لگا،میں نے 20 روپے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دئیے،وہ شکریہ ادا کرکے چلنے لگا تو نہ جانے میرے دل کیا خیال آیا،میں نے کہا،سنو،تمہیں دیہاڑی کتنی ملتی ہے اس کے جواب دینے سے پہلے ہی میں نے باقی کے 60 روپے بھی اس کی طرف بڑھا دیے۔وہ ہچکچاتے ہوئے پیچھے ہٹا اور کہنے لگا۔نہیں بھائی جان! میرا گھر منڈھالی شریف ہے،میں پیدل بھی جا سکتا تھا لیکن کل سے ماں جی کی طبیعت ٹھیک نہیں،اوپر سے دیہاڑی بھی نہیں لگی،سوچا آج جلدی جا کر ماں جی کی خدمت کرلوں گا“۔

میں نے کہا اچھا یہ پیسے لے لو ماں جی کے لیے دوائی لے جانا۔وہ کہنے لگا“دوائی تو میں کل ہی لے گیا تھا۔آج میں سارا دن ماں جی کے پاس رہوں گا تو وہ خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی،مائیں دوائی سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں بابو جی! میں نے حیران ہو کر پوچھا،تمہارا نام کیا ہے؟اتنے میں اس کی بس آگئی،وہ بس کے گیٹ میں لپک کر چڑھ گیا۔اور میری طرف مسکراتے ہوئے زور سے بولا”گلو“گلوکی بس چل پڑی لیکن گلو کے واپس کئے ہوئے 60 روپے میری ہتھیلی پر پڑے ہوئے تھے۔

اور میں ہائی سٹریٹ کے رش میں خود کو یک دم بہت اکیلا محسوس کرنے لگا۔کچھ سوچ کر میں نے موٹر سائیکل کا رخ ریلوے اسٹیشن کی طرف موڑ لیا۔موٹر سائیکل کو اسٹینڈ پر کھڑا کر کے ٹوکن لیا اور ٹکٹ گھر سے 50 روپے میں خانیوال کا ٹکٹ لے کر گاڑی کے انتظار میں بینچ پر بیٹھ گیا۔کب گاڑی آئی،کیسے میں سوار ہوا کچھ خبر نہیں،خانیوال اسٹیشن پر اتر کے پھاٹک سے کبیروالا کی وین پر سوار ہوا،آخری بچے ہوئے 10 روپے کرایہ دے کر جب شام ڈھلے اپنے گھر کے دروازے سے اند ر داخل ہوا تو سامنے صحن میں چارپائی پر امی جان سر پرکپڑا باندھے نیم دار تھیں۔

میرا بڑا بھائی دوائی کا چمچ بھر کر انہیں پلا رہا تھا۔مجھے دیکھتے ہی امی جان اٹھ کر کھڑی ہوئیں اور اونچی آواز میں کہنے لگیں۔”او! میرا پتر خیر سے گھر آگیاہے!اب میں بالکل ٹھیک ہوں“میں آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے دوڑ کر ان کے سینے سے جا لگا۔بس کے گیٹ میں کھڑے گلو کا مسکراتا ہوا چہرہ یک دم میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور میں سمجھ گیا کہ اس نے مجھے 60 روپے واپس کیوں کیے تھے۔
چراغ لے کے کوئی،راستے میں بیٹھا تھا
مجھے سفر میں جہاں رات ہونے والی تھی

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Maaen Dawai Se Kahan Se Theek Hoti Hain Babu Ji is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 May 2017 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.