مر چلے ہم جینے کی اس بھونڈی کوشش میں

ان خستہ حال عمارتوں کو دیکھ کر دل لرز جاتا ہے جو کہ ہمیں متحدہ پاک و ہند کے دور کی یاد دلاتی ہیں اور یقینا اسی دور کی شکستہ نشانیاں ہیں جب تقسیم ہند کا عمل وقوع پذیر نہیں ہوا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس دور کی یاد گار شکستہ حال عمارتیں جو کسی بھی لمحہ گرنے کو تیار ہیں پورے لاہور بلکہ دوسرے شہروں میں بھی جا بجا موجود ہیں

سمن رفیع پیر 4 مارچ 2019

mar chale hum jeene ki is bondi koshish mein
انارکلی قدیم اور مشہور تاریخی بازار ہے جو کہ رونق میں اپنی مثال اپ ہے۔انتہائی دلکش اور پر کشش انداز میں سجا سجایا بازار جس کی چکا چوند سے آنکھیں چندھیاں جاتی ہیں۔یہ پر فریب بازار اس قدر سلیقہ مندی اور عمدہ شاہی ذوق سے سجایا گیا ہے کہ دیکھنے والے خیرہ آنکھیں لئے اس کی چمک دمک کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ اور رونق میں چار چاند لگانے کا سہرا یہاں چاروں طرف بڑی یونیورسٹیوں کی موجودگی ہے کہ طلبا کے غول کے غول یہاں خریداری اور کھانے پینے کے لیے آتے رہتے ہیں۔

مگر اس قدر رونق اور گہما گہمی میں گم شاید ہی کسی کی نظر اس کی اس چکا چوند سے اوپر بھی گئی ہو۔ دلکش اور پر فریب نظر بازار میں اگر اوپر کی طرف نگاہ دوڑائی جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی بہت ہی خستہ حال گرنے کے قریب عمارتوں والے علاقے میں آ گئے ہیں۔

(جاری ہے)

ان خستہ حال عمارتوں کو دیکھ کر دل لرز جاتا ہے جو کہ ہمیں متحدہ پاک و ہند کے دور کی یاد دلاتی ہیں اور یقینا اسی دور کی شکستہ نشانیاں ہیں جب تقسیم ہند کا عمل وقوع پذیر نہیں ہوا تھا۔

یہی نہیں بلکہ اس دور کی یاد گار شکستہ حال عمارتیں جو کسی بھی لمحہ گرنے کو تیار ہیں پورے لاہور بلکہ دوسرے شہروں میں بھی جا بجا موجود ہیں اور یہ اپنے رہائشی وطن عزیز کے مجبور اور غریب طبقہ کی بے بسی لاچاری اور مجبوری کی داستان الم سناتی ہیں یہ عمارات شکستہ اور بوسیدہ اس قدر ہیں کہ زمانہ قدیم کے کسی ویران قبرستان کی مانند اجڑی ہوئیں اور کسی بوسیدہ انتہائی عمر رسیدہ بوڑھے، جو کہ اپنی جوانی کے شاندار لمحات و واقعات آہ و الم میں ڈوبے لہجے میں بیان کرتا ہو، کی طرح اپنی آنکھوں سے دیکھے قبل از تقسیم و مابعد کے حالات و واقعات خاموشی میں ڈوبی آہوں سے بیان کرتی ہیں اور ان کی بوسیدگی اور خستہ حالی دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اب زمانے اور وقت کے سرد و گرم جھیلنے کے قابل نہیں رہیں اور کسی بھی لمحہ سر پر آ گریں گی۔

مجھ نا چیز میں تو ان کو دیکھنے کا بھی حوصلہ نہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مکینوں کو ان کی بے بسی نے اس قدر حوصلہ مند بنا دیا ہے کہ وہ وہاں رہنے پر مجبور ہیں تا کہ زندگی کسی بھی طرح ان کو گزار لے۔ بقول شاعر
زندگی ہے یا کوئی طوفان 
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے 
عکاسی کے لئے ذیل میں چند تصاویر دی گئی ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

mar chale hum jeene ki is bondi koshish mein is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.