تحریر: محمد وقاص
اکثر لوگ ناکامی کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں مگر ایسے لوگ ناکامی کے بعد محنت کو ترجیح دینے کی بجائے قسمت کا لکھا سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔
آج کل انٹر نیٹ کا زمانہ ہے اگر آپ سرچ کریں کہ محنت کیسے کی جائے تو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں نقطے آ جائیں گے۔ لیکن اس میں کوفت یہ ہے کہ بندہ پہلے تو ان میں سے اپنے مطابق نقطے ڈھونڈنے میں ناکامی کا سامنا کرتا ہے پھر ان پر عمل پیرا ہونا مشکل ہوتا ہے۔
میں بذات خود ایک طالبعلم ہوں سو دو ہی نقطے بیان کروں گا۔
لوگ دو طرح کے ہوتے:
۱۔ ایک وہ جو کہتے کہ ہم سے محنت ہوتی ہی نہیں
۲۔ وہ لوگ جو کہتے کہ محنت تو کرتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوتے
۱۔ میں نے لوگوں کو کہتے سنا کہ محنت نہیں ہوتی اور دوسرے الفاظ میں کسی کام پر فوکس نہیں ہوتا ہم سے، مختلف وجوہات آڑے آتی جیسے کبھی سوشل میڈیا، موبائل، کبھی دوست احباب کا بلاوہ تو کبھی خود کی سستی تو کیسے کر محنت کی جائے۔
(جاری ہے)
ہاں یہ سب مسائل درست ہیں، ہوتا ہے ہم سب کی زندگیوں میں ایسا ہوتا تو ان سب کے باوجود محنت کیسے کریں تو سنیے ایک ایسی بات کہنے جا رہا ہوں کہ غور کیجیئے گا،
محنت کرنے کے لیے ایک ٹھوس وجہ تلاش کریں۔اگر کسی بھی کام کے کرنے کی وجہ مل جائے اور وجہ بھی ٹھوس ہو کوئی،تو بندہ لازمی محنت کرتا۔سستی آڑے تب آتی جب بندہ بن وجہ کے کوئی کام کرتا،صاف سی بات ہے انسانی فطرت ہے جب انسان کے پاس کوئی وجہ نہیں کچھ کرنے کی تو اس کام پر فوکس کیسے کیا جا سکتا۔
جب تمہارے پاس کچھ وجہ ہوگی تو نہ تمہاری سستی آڑے آئے گی نہ ہی دوست احباب تمہیں تمہارے مقصد سے ہٹا نہیں سکتے۔.
ایک واقع سناتا ہوں کہ امریکہ کے شہر کیلیفورنیا میں ایک بچہ رہتا تھا جو روزانہ صبح اپنے ابا کے ساتھ سکول جایا کرتا تھا۔اس بچے کو فٹ بال کھیلنے کا بہت شوق تھا سو اس بچے نے سکول ٹیم میں حصہ لیا.ہر دن جب وہ پریکٹس کرتا گراؤنڈ میں تو گراؤنڈ کے باہر ایک شخص ہمیشہ بیٹھا رہتا وہ تھا اس کا باپ،وہ بچہ کھیلنے میں اتنا اچھا نہ تھا سو کبھی اس کو کسی میچ میں کھیلنے کی اجازت نہ مل سکی مگر اس کے شوق نے اس کو ہمیشہ اس گیم سے جوڑے رکھا.ایک دفع کیا ہوا جی کہ میچ آگیا اس سکول کا نیو یارک کے ایک سکول کے ساتھ،کوچ اس بچے کو ساتھ لے جانے کے لیے،مان تو گیا لیکن اضافی کھلاڑی کے طور پر۔
خیر ٹیم وہاں پہنچی پہلا میچ ہوا اس بچے کو موقع نہ ملا.میچ بہت ٹف رہا۔پہلا میچ گزرا تو کیلیفورنیا سے ایک خبر آئی کہ اس بچے کا باپ فوت ہوگیا۔کوچ نے اس بچے کو فوراً واپس بھیج دیا۔اس دن سے ٹھیک دو دن بعد اگلا میچ تھا.وہ بچہ واپس آگیا،کفن و تدفین کا معاملہ ہوا مگر یہ کیا وہ بچہ پھر سے اگلے ہی دن ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے واپس میچ گراؤنڈ میں پہنچ گیا اور کوچ سے درخواست کی کہ آج اسے کھیلنے کا موقع دیا جائے۔
کوچ حیران بھی تھا اور پریشان بھی کہ اتنی کیا میچ کھیلنے کی آفت آگئی.خیر کوچ اس بات پر راضی ہوگیا کہ اگر کسی اضافی کھلاڑی کی ضرورت پڑی تو سب سے پہلے تمہیں ہی بھیجا جائے گا.خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ ایک کھلاڑی انجر ہوگیا.اب قدرت نے اس بچے کو ایک موقع دیا اپنے آپ کو ثابت کرنے کا.اب وہ بچہ چاہتا تو پہلے کی طرح خراب کھیل سکتا تھا.آج تو اسے کسی نے کچھ کہنا بھی نہ تھا کیونکہ ہر انسان جانتا تھا کہ وہ صدمے میں ہے.مگر اس دن ہر شخص نے دیکھا کہ اسی لڑکے نے کہ جس کو ٹھیک طرح سے کھیلنا بھی نہیں آتا تھا،مخالف ٹیم کو پریشان کر رکھا تھا۔
آج اسی بچے نے گول پر گول کیا،مخالف ٹیم کا ہر کھلاڑی اسی بچے سے پریشان تھا.میچ ختم ہوا جیت اس بچے کی ٹیم کا مقدر ہوئی.اس بچے کا کوچ خوش بھی تھا مگر حیران زیادہ اس نے اس بچے سے پوچھا پہلے کبھی تم اتنا اچھا نہیں کھیلے آج جب کہ تم صدمے میں تھے ٹیم کو میچ جتوا دیا تو اس بچے نے جواب بہت حسین دیا.اس نے بتایا کہ میں کھیلتا ہوں اپنے باپ کے لیے.پہلے میرا باپ گراؤنڈ کے باہر بیٹھا کرتا تھا اس کو بس میرا گراؤنڈ میں اترنا پسند تھا سو میں جیسا بھی کھیلتا تھا وہ مجھے داد دیتا تھا کیونکہ وہ دیکھ نہیں سکتا تھا.آج جبکہ وہ اس دنیا میں نہیں ہے تو مجھے یوں لگا کہ وہ خدا کے پاس بیٹھا مجھے دیکھ رہا ہے سو مجھے ایک وجہ ملی اپنے باپ کو خوش کرنے کی،میں نے سوچا آج میں اپنی زندگی کا سب سے اچھا میچ کھیلوں گا،سو میں کھیلا۔
تو قارئین وجہ تھی اس کے پاس کچھ کر گزرنے کی۔جب تک بن وجہ چل رہا تھا سب کچھ تب تک وہ کامیاب نہ ہوپایا۔لیکن جب اسے ایک ٹھوس وجہ ملی تو اس نے کر دکھایا پھر نہ تو اس کے آڑے اس کا کوچ آیا نہ ہی اس کا غلط کھیلنا بلکہ قدرت نے بھی اس کا ساتھ دیا۔تو محنت کیجئے اپنے لیے نہ سہی ان کے لیے ہی جو آپ سے امیدیں وابسطہ کیے ہوئے ہیں یعنی آپ کے والدین۔
کوئی خاص وجہ تلاش کیجئے محنت کرنے کی۔
۲۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے جو کہتے ہیں ہم محنت تو کرتے لیکن کامیاب نہیں ہوپاتے مثلاً ہم گھنٹوں بیٹھے سبق یاد کرتے مگر یاد ہی نہیں ہوتا۔
تو قارئین میں آپ کو کامیابی کے اجزائے ترکیبی بتاتا ہوں۔ کامیابی میں پہلے 30 فیصد ہوتی ایمانداری کہ آپ اپنے مقصد کے ساتھ ایماندار کتنے ہیں۔دوسری چیز ہوتی 50 فیصد آپ کی محنت آپ اپنے مقصد کو پانے کے لیے محنت کتنی کرتے ہیں اور تیسری 20 فیصد وہ ہوتی آپ کی خداداد صلاحیت اس مقصد کو انجام دینے کی یعنی آپ کی دماغی طاقت کیونکہ اکثر لوگوں کو کہتے سنا کہ وہ شخص مجھ سے زیادہ ذہین ہے سو زیادہ پڑھتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ اس ذہین سے بھی اچھا پڑھ سکتے پہلے پہلی دو چیزیں تو مکمل کرلیں،وہ ذہانت تو آخر میں آتی اور وہ بھی فقط 20 فیصد ہے۔
بات کرتے ہیں ایمانداری کی کہ ایمانداری کا اس سے کیا تعلق تو دوستو ایمانداری کا بہت گہرا تعلق ہے کامیابی کے لیے پہلی شرط ہی ایمانداری ہے خواہ کامیابی تعلیم کے میدان میں ہو یا کاروبار کے میدان میں۔
میں پڑھنے بیٹھتا ہوں مگر میرے ذہن میں خیال آتا ہے کہ چھوڑو بس دو لائنیں کر لیتا ہوں ٹیچر کو کونسا پتا چلے گا یا دوسری سوچ کہ نمبر تو مل ہی جائیں گے تو پھر جب امتحان ہوتا تو یا ہم بھول جاتے یا اگر امتحان پاس کر بھی لیتے تو پھر جب کبھی اگلی دفع وہی سوال دوبارہ آتا تو ہم اس کو بیان کرنے میں ناکام ہوجاتے تو پھر اس ناکامی کا الزام کسی اور پر دھرنے کی کوشش کرتے۔
اوہ بھیا! جب ہم خود ہی اپنے ساتھ مخلص نہیں ہم خود ہی اپنے مقصد کے ساتھ ایماندار نہیں تو کامیابی کیا خاک آئے گی ہمارے پاس تو ایمانداری پہلی شرط ہوئی کامیابی کے لیے
پھر آتی ہے محنت جو کچھ لوگ کرتے ہی نہیں اور کچھ اگر کرتے ہیں تو بے دلی سے یعنی پہلی شرط کو پس ذہن ڈال کر،تو محنت بھی تبھی پھل دیتی جب محنت کرنے کا کوئی مقصد ہوتا یا کوئی وجہ ہوتی آپ کے پاس اور اس مقصد کے ساتھ آپ خود ایماندار ہوتے اور یاد رکھیے گا محنت کامیابی میں بہت زیادہ ضروری ہے 50 فیصد۔
تیسرے نمبر پر آتی ہے آپ کی خداداد صلاحیت۔میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ خدا نے ہر چیز کو مکمل بنایا کسی چیز کو ادھورا نہیں چھوڑا۔یہ ہوسکتا ہے کہ میں کمزور ہوں تو میرے دوست کا ذہن مجھ سے زیادہ چلتا ہو مگر ساتھ یہ بھی لازمی ہوگا کہ خدا نے اس کے بدلے مجھے ایسی ایک خوبی عطا کی ہوگی جو اس میں نہیں ہوگی۔تو بجائے اس پر شکوہ کرنے کہ میں کمزور ہوں پہلے اپنے کامیابی کے 80 فیصد اجزا مکمل کیجئے۔
یاد رکھیے گا آپ کی ذہانت صرف 20 فیصد ہوتی کامیابی میں۔یہ ممکن ہے کہ میرا دوست مجھ سے پہلے کچھ یاد کرلے مگر یہ ممکن نہیں کہ میں کر نہ سکوں گا،ہاں یہ ہوسکتا کہ مجھے وقت تھوڑا زیادہ لگے،مجھے تھوڑی زیادہ محنت کرنا پڑے۔
تو دوستو!.خود کو پہچانیے۔ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر غور کیجئے۔میرا ماننا ہے کہ ہر شخص کے اندر ایک جینیئس انسان چھپا ہوتا تو اپنے اندر کے اس انسان کو نکالیے۔اس کے بارے میں بھی کبھی وقت ملا تو چند الفاظ گوش گزار کروں گا۔
خدا آپ کو کامیابیوں سے سرشار کرے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔