میرا جسم میری مرضی، لو بیٹھ گئی ٹھیک سے

گھروں سے ضرور نکلیں اپنی مظلوم بہنوں کے لیے آواز حق بلند کریں اور ان مسائل کو اجاگر کریں جو ہماری جڑوں میں موجود ہیں، اگر ہم سہی طریقے سے اپنی بات پیش کریں گے تو وہ سنی بھی جائے گی اور ہم نے جب عورت کو اس کے اصل حقوق کی تعلیم دے دی تو جسم کے مسائل بھی خود ختم ہو جائیں گے

صفورا خالد ہفتہ 7 مارچ 2020

mera jism meri marzi, lo baith gayi theek se
کیا عورت مارچ میں استعمال ہونے والے سلوگنز عورتوں کے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں؟
ایک پرانے محلے کی لڑکی کو تعلیم آگے جاری رکھنے کی اجازت صرف اس لیے نہیں دی گئی کیونکہ گلی کے نکڑ پر بیٹھے چند اوباش لڑکے اس کے راستے میں دو چار بار آئے تھے تو لڑکی کا گھر سے نکلنا بند ہو گیا۔۔ مگر کسی نے ان لڑکوں کا گلی کے نکڑ پر بیٹھنا بند نہ کروایا۔ ایک لڑکی نے تمام تر صلاحیتیں ہونے کے باوجود صرف اس لیے نوکری چھوڑ دی یا بر طرف کر دیا گیا کیونکہ وہ اپنے سٹاف کے کچھ سینئر لوگوں کی دل لگی کا سامان بننے سے انکار کر چکی تھی۔


 ایک لڑکی کے منہ پر تیزاب پھینک دیا گیا کیونکہ اس نے دوستی سے انکار کیا تھا، ایک دور پسماندہ گاؤں کی حاملہ عورت جو صبح تڑکے اٹھتی ہے بھرے گھر کے لیے ناشتہ تیار کرتی ہے جانوروں کے چارے کا انتظام پھر گھر کے کام ختم کر کے کھیتوں میں جا کر کام کرتی ہے اور پھر گھر آ کر کھانا تیار کرتی ہے اور اس سب کام میں کوئی کمی رہ جائے تو شوہر اور ساس کی مار بھی سہہ رہی ہے کیونکہ اس کو پیدا کرنے والے اس کے ماں باپ بھی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں، وہ اس بار بھی یا تو بچے کی پیدائش کے مشکل مرحلے سے گزر جائے گی اور اگلے سال ایک اور بچہ اس کی کوک میں ہو یا پھر کمزوری کام کی ذیادتی اور مار سہنے سے پیدائش کے وقت کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مر جائے گی۔

(جاری ہے)

 لوگوں کے گھروں میں کام کر کے گھر چلانے اور بچوں کا پیٹ پالنے والی عورت صرف اس لیے اپنے نشے کے عادی شوہر کے ساتھ رہتی ہے اس کی گالیاں کھاتی ہے اس کو پیسے بھی دیتی ہے کیونکہ وہ صرف اس کا شوہر ہے اور اگر وہ شوہر کو چھوڑے گی تو معاشرہ اسی کو بدکردار کہے گا۔ ایک عورت (یہ جانے بغیر کے اولاد میں جنس کا تعین مرد کی جانب سے ہوتا ہے) ہر سال اس لیے بچہ پیدا کر رہی ہے کیونکہ اس کے شوہر اور سسرال والوں کو لڑکا چاہیے،ایک لڑکی نے اپنے باپ کی وراثت میں سے حصہ صرف اس لیے نہیں لیا کیونکہ اسے اس کی ماں نے یہ بتانے کے بجائے کہ باپ کی وراثت پہ اس کا حق ہے، یہ بتایا کہ جو باپ کا ہے وہ بھائیوں کا ہے اور اس میں سے حصہ لینا گناہ کبیرہ ہے۔

ایک لڑکی کی شادی اس کے باپ بھائیوں نے صرف اس لیے نہیں کی کیونکہ اس کی شادی کرنے سے لڑکی کو اس کا حصہ دینا پڑتا، خاندان کی زمین کا بٹوارا ہوتا اور زمین کہیں باہر چلی جاتی۔
یہ چند گنتی کے مسائل اور اس طرح کے بیش بہا مسائل ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن کی جڑیں ہمارے معاشرے میں مضبوط ہو چکی ہیں۔

ان مسائل کو حل کرنے کے نام پر اشرافیہ نے ایک تحریک شروع کی جس نے مغرب میں جنم لیا، مغرب میں پرورش پائی اور وہاں کے مسائل اور ان کے نکالنے کے تحت اس کی منصوبہ بندی کی گئی۔ ہمارے معاشرے سے ایک خاص طبقہ اٹھا اور اس نے مغرب میں پروان چڑھی اس تحریک کو لا کر ایک بلکل الگ معاشرے میں لا کر چلانا شروع کر دیا ایک ایسا معاشرہ جو ہر لحاظ سے پسماندہ ہے۔

اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہونا، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور مظلوم کا ساتھ دینا ایک اچھا اور ضروری امر ہے، مگر جو طریقہ ہم اپنا رہے ہیں کیا اس سے مظلوموں کی زندگیوں پر کوئی مثبت تبدیلی رونما ہو رہی ہے؟ یا پھر ایسا تو نہیں ہو رہا کہ جن کو کوئی آزادی اور حقوق حاصل بھی ہیں وہ آزادی تو نہیں صلب گئی؟ کیا ہمارا خاندانی نظام تو متاثر نہیں ہو رہا؟ اپنی صحیح بات منوانے کا غلط طریقہ تو نہیں اپنا لیا کہ ہم نے؟ یہ سب سوال ایسے ہیں جن کے جواب جاننا ضروری ہیں۔

 مغرب سے درآمد شدہ یہ تحریک اور اس میں استعمال ہونے والے سلوگنز نے درج بالا مسائل میں سے کتنے مسائل کو حل کیا؟ شاید بہت کم مگر ہاں میرا جسم میری مرضی، لو بیٹھ گئی ٹھیک سے، کھانا میں گرم کر دوں گی بستر خود گرم کر لو جیسے سلوگنز نے معاشرے میں بدتہذیبی کے شعلے بھڑکانے کے علاوہ کوئی مثبت کردار نہیں ادا کیا۔ بیٹھنے کا جہاں تک تعلق ہے تو بدتہذیبی سے بیٹھا مرد بھی برا ہی لگتا ہے، یعنی مرد عورت دونوں انسان ہیں اور انسان کو عورت مارچ والے سلوگن جیسا ٹھیک سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلام نے جن حقوق اور عزت و احترام کا حقدار چودہ سو سال پہلے عورت کو قرار دیا تھا ان حقوق کی تعلیم عام کی جاتی قرآن اور سنت کے تمام حوالے کھول کھول کر بیان کیے جاتے جس سے دین کے نام پر عورت پر پابندیاں لگانے والے بے نقاب ہوتے، عورتوں کو اپنے حقوق کا پتہ چلتا، انہیں انصاف کی فراہمی اور انصاف دینے والے اداروں کے بارے میں بتایا جاتا، ان کو عورتوں سے متعلق بنے قوانین کے بارے میں بتایا جاتا اور ان قوانین پر عمل درآمد کا حوصلہ دیا جاتا، مذہب کے نام پر جو عورت کے ساتھ کمزور بے بس اور بے زبان جانور جیسا سلوک کرتے ہیں وہ قطعاً مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں کیونکہ ان کے یہ اقدامات اسلامی تعلیمات کے بلکل منافی ہیں۔

 
تاریخ کو کھنگالا جائے تو تاریخ بہادر کامیاب،جرات مند اور مضبوط عورتوں سے بھری پڑی ہے۔ عورتیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے ضرور باہر نکلیں، مگر خود ہی خود کی تذلیل نہ کریں۔۔ تمیز ہر معاشرے کا بہت اہم عنصر ہے اور اٹھنا بیٹھنا رہنا سہنا سب کسی بھی معاشرے کی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ عورت تو معاشرے کی تربیت کرتی ہے اگر وہی بدتہذیبی کو فروغ دے گی تو معاشرے میں سدھار آنے کے بجائے بگاڑ ہی آئے گا۔

 
گھروں سے ضرور نکلیں اپنی مظلوم بہنوں کے لیے آواز حق بلند کریں اور ان مسائل کو اجاگر کریں جو ہماری جڑوں میں موجود ہیں، اگر ہم سہی طریقے سے اپنی بات پیش کریں گے تو وہ سنی بھی جائے گی اور ہم نے جب عورت کو اس کے اصل حقوق کی تعلیم دے دی تو جسم کے مسائل بھی خود ختم ہو جائیں گے۔ کیونکہ میرا جسم میری مرضی مسائل کی صحیح معنوں میں عکاسی نہیں کرتا۔ عورت اس سلوگن کا مطلب سمجھانے میں الجھی رہے گی اور اصل مسائل وہیں کے وہیں رہ جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

mera jism meri marzi, lo baith gayi theek se is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.