محمد بن سلمان کا سعودی عرب ! چیلنجز کا سامنا کر پائیگا؟

سعودی عرب تبدیلی کی راہ پر ہے، کسی عرب سپرنگ یا انتہا پسندانہ نظریات کی یلغار کے نتیجے میں نہیں بلکہ 32سالہ سعودی ولی عہد کے عہد ساز اقدامات کے ممکنہ دور رس نتائج کی وجہ سے

پیر 25 دسمبر 2017

Muhammad Bin Sultan Ka Saudi Arab Chelges ka Samna kr payega
محمد سعید رفیق:
سعودی عرب تبدیلی کی راہ پر ہے، کسی عرب سپرنگ یا انتہا پسندانہ نظریات کی یلغار کے نتیجے میں نہیں بلکہ 32سالہ سعودی ولی عہد کے عہد ساز اقدامات کے ممکنہ دور رس نتائج کی وجہ سے جنھیں ناقدین مستقبل کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرر ہے ہیں ،بااثرشہزادوں کوقابو کرنے کیلئے اینٹی کرپشن مہم ،یمن میں حوثیوں کے خلاف کارروائیاں، قطر سے تنازع، اسرائیل سے خفیہ تعلق کاری کا آغاز،اسلامی اتحادی فوج کی تشکیل ،خطے میں اثر و رسوخ میں اضافے ، ایرانی چیلنج کے مقابلے کیلئے مشرق وسطیٰ کی بساط پر اپنی مرضی کا میدان سجانااور امریکا سے مستقبل قریب میں 100ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری سمیت ثقافتی شہر کے قیام کا منصوبہ، خواتین کے حقوق کیلئے کی گئی قانون سازی اور سیاست کے دروازے کھولنے ،تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر بے دخلی جیسے ان گنت محاذ کھولنے والے محمد بن سلمان کو خود کش بمبار بھی کہا جارہا ہے، مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایم بی ایس دنیا کو جلد ایک نئے سعودی عرب سے روشناس کرانے والے ہیں ، مگر اس سب سے بڑھ کر بلین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا شہزادہ محمد بن سلمان ہدف کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے؟ سعودی معاشرہ خصوصاً قبائل اور علما عنقریب آنے والی تبدیلیوں کو تہہ دل سے خوش آمدید کہہ سکیں گے،شاہی خاندان کہ جس کے اہم اور سرکردہ افراد نظر بند ہیں یا پھر جیل خانوں میں کیا ولی عہد ان کی نفرت اور کسی بھی ممکنہ بغاوت کے آثار سے نمٹ پائیں گے، اگر شہزادہ محمد بن سلمان یہ سب کچھ کر بھی گزریں توبڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ کو کچلنے کیلئے اسرائیل سے قربتوں میں اضافے کو باالعموم مسلم اورعرب باالخصوص سعودی معاشرہ قبول کیسے قبول کرلے گا،بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی حکمرانوں کیلئے2030کے ثقافتی شہر تک پہنچنے کے کیلئے درمیان میں اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔

(جاری ہے)

موجودہ سعودی حکمرانوں کو درپیش چیلنجز کی طویل فہرست کا جائزہ لیا جائے تو سب سے اہم پڑوسی ممالک سے پیدا شدہ تنازعات ہیں، علی صالح کے قتل کے بعدیمن میں حوثیوں کے بڑھتا اثر و رسوخ سعودی حکام کیلئے قابل تشویش ہے،مسئلے کے حل کیلئے سعودی حکومت کی جانب سے اقدامات کا انتظار کیا جارہا ہیبدترین معاشی حالات میں دوست ممالک سے جنگ زدہ ماحول پیدا کرنااور تنازعات میں الجھنے کی پالیسی کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جارہا، سعودی پراکسی وار کسی بھی طرح عربوں اور مسلمانوں کیلئے خوش آئند قرار نہیں دی جاسکتی، شہزادہ عالی مقام کو مسلمانوں خصوصاً عربوں کی جہاندیدہ قوت بننے کیلئے تنازعات میں الجھنے کے بجائے انہیں حل کرنا ہوگا،یمن کی صورتحال دن بہ دن ناگفتہ با ہو تی جارہی، خانہ جنگی کا میدان وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے ، شام میں خون ریز مداخلت نے کو ئی فائدہ نہیں دیا، قطر سے تعلقات کا باب بند کرنے سے سوائے مالی نقصان کے کچھ حاصل نہ ہو سکے،ناکام جنگی حکمت عملی کے باوجود امریکا سے 100ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری کیا صرف ایرانی توسیع پسندانہ سوچ کا مقابلہ کرنے کیلئے ہے، اگر ایسا ہے تو ایران کے مقابلے میں سعود ی قیادت کو ابھی ایسے مزید معاہدوں کی ضرورت ہے کیونکہ ایران فوجی میدان میں سعودی عرب سے کئی گنا آگے ہے، ضرورت اس امرکی ہے کہ ایران کے مسئلے کو اتحاد بین المسلمین کے تناظر میں حل کرنے کی کوشش کی جائے، وگرنہ مسلم ممالک بالخصوص گلف کے مستقبل میں تباہی کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا۔

، دوسری جانب رنگ بدلتے حالات نیصورتحال کو یکسر تبدیل کردیا ہے، کچھ دنوں پہلے تک ایسا لگ رہا تھا کہ 1948میں سرزمین عرب میں اسرائیل کے ناجائز قیام سے شروع ہونیوالا تنازع آج حل کی جانب جا رہا ہے۔ مگر مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اقدام کے نتیجے میں معاملات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئیہیں۔ امریکی اقدام کی حماس فلسطین اتھارٹی، سعودی عرب،عرب لیگ ترکی اور اردن سمیت کئی اسلامی ممالک سمیت دنیا بھر نے بھرپور مذمت کرتے اسے خطے کے امن کیلئے اسے تباہ کن قرار دے دیا ہے، ٹرمپ کے اس فیصلے کی مذمت کرنے والوں میں روس،برطانیہ اور فرانس،کینیڈا ،اقوام متحدہ اور یورپی یونین بھی شامل ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب سابق مصری صدر انور سادات کے دورہ اسرائیل کے ٹھیک 40 سال بعد عرب اسرائیل تعلقات میں ایک ڈرامائی موڑ کا ظہور ہونے لگا تھا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اقدام ظاہر کر رہا ہے کہ کچھ بڑی قوتوں کا مفاد حالات کو جوں کا توں رکھنے میں ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم اور اعلیٰ حکام نے حالیہ دنوں میں اسرائیل اور عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب سے خفیہ تعلقات کا انکشاف کیا ہے تعلقا ت میں ، ڈھکی چھپی گرم جوشی گزشتہ چند سالوں سے بیک ڈور ڈپلومیسی کا نتیجہ ہے، تنا? میں کمی کا بڑا سبب یورپی یونین کی جانب سے ایران پر سے اٹھائی جانے والی پابندیاں اور ایرانی نیوکلیئر ڈیل کو قرار دیا جارہا ہے ، اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے اسرائیل سعودی عرب خفیہ تعلقا ت کا اقرار بھی اہم ہے ، ایران دشمنی میں پروان چڑھنے والے عرب اسرائیل خفیہ تعلقات کے حوالے سے اسرائیلی وزیر اعظم ا یک سوفٹ وارننگ بھی جاری کر چکے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کو ہم سے ہر صورت تعاون کرنا ہوگا بصورت دیگر غیر ملکی جنگجو?ں سے بہ امرمجبوری تعاون کریں گے۔

اسرائیل کا عرب ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا در اصل عرب اسرائیل مشترکہ دشمن ایران کے خلاف یکساں موقف اور مضبوط اتحاد بنانے کیلئے ہے، اسرائیلی وزیر اعظم نے سعودی عرب کوایران جارحیت سے نمٹنے کیلئے معلومات کی فراہمی کی بھی پیشکش کی ہے، بین الاقوامی میڈیا پر گردش کرتی خبروں میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خفیہ دورہ تل ابیب کا بھی چرچا ہے جس پر دونوں جانب سے ردعمل دینے سے گریز کیا جارہا ہے ،البتہ اسرائیلی ذرائع نے موساد اور سعودی انٹیلی جنس چیف کی تل ابیب میں ہونے والی ملاقات کی تصدیق کی ہے ،اسرائیلی وزیر توانائی بھی سعودی عرب سے خفیہ تعلقات کا اعتراف کرچکے ہیں وزیر اعظم کے سابق مشیر سلامتی کا کہنا ہے کہ عرب دنیا کی موجودہ صورتحال میں شہزادہ محمد بن سلمان کا کردار قائدانہ اور قابل تعریف ہے ، مشیر سلامتی یقوو نیگال نے کہا کہ سرزمین عرب پر اس وقت چار بڑے مسلم گروہ آپس میں بر سر پیکار ہیں جن میں ماڈریٹ مسلم ، جہادی ، اخوان المسلمون اورایران کے حمایت یافتہ شعیہ ا نقلابی شامل ہیں۔

یقوونیگال نے محمد بن سلمان کی ولی عہدی کے عہدے پر تعیناتی کو غیر معمولی قرار دیا، ان کا کہنا ہے کہ ایم بی ایس سعودی عرب کو صحیح مقام تک لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر اس کے باوجودابھی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں جن میں سب سے اہم مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پیش رفت بھی شامل ہیں ، دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اسرائیل سعودیہ خفیہ تعلقات کی کہانی کو مسترد کرتے ہوئے عرب اسرائیل تعلقات کو مسئلہ فلسطین کے حل تک خارج از امکان قراردیا۔

واضح رہے کہ سعود ی عرب نے 2002میں مشرق وسطیٰ امن اقدامات کیلئے تجاویز پیش کی تھیں ،جن کے مطابق خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں مسلم دنیا کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی۔ دوسری جانب عرب دنیا میں پیش آمدہ نئے حالات کے تناظر میں حماس نے بھی مسئلے کے حل کیلئے مثبت کردار اداکرنے کا فیصلہ کیا ہے ،اس سلسلے میں یکم اکتوبر کو مصر کے دارالحکومت قاہر ہ میں حماس اور فلسطین اتھارٹی غزہ کے نظم و نسق چلانے کے حوالے سے ایک معاہدہ پر متفق ہوئے۔

معاہدہ کے تحت حماس نے یکم دسمبر سے غزہ کا نظم نسق فلسطین اتھارٹی کو سونپ دیا ہے، فلسطین اتھارٹی اور حماس کے درمیان تعاون کے معاہدے کو عرب دنیا سمیت عالمی سطح پر خوش آئند قرار دیا گیاہے ، حماس نے آ زادی فلسطین کے حوالے سے اپنے سخت گیر موقف کو تبدیل کرتے ہوئے گزشتہ مئی میں 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران پیش کئے جانے والے سرحدوں کی حدود کے فارمولے کو قبول کیا ہے ، ایران کا خطے میں بڑ ھتا ہوا نفوذ عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کیلئے کسی طورقابل قبول نہیں ہے،دوسری جانب اسرائیل بھی ایرانی اثر و رسوخ سے نالاں ہے،ایران کی میزا ئل ٹیکنالوجی میں خاص مہارت کے سبب دونوں ممالک کو ایک دوسر ے سے قریب آنے پر مجبور ضرور ہیں مگر ا س کا ایک سبب سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے ،جس کی بنیادی وجوہات میں 70سالوں سے حل طلب مسئلہ فلسطین اور اس سے ملحق عرب نوجوانوں میں مقبول حماس اور اس کے سخت گیر نظریات بھی ہیں ،حماس کی خطہ عرب میں موجودگی و مقبولیت عرب بہار کی آمد کا یقینی مڑدہ ہے جو فی الوقت مشرق وسطیٰ کیلئے درست نہیں، اس لئے خواتین کے حقوق میں اضافے، ثقافی سرگرمیوں کے فروغ اور وڑن 2030درحقیقت ملک میں ایک لبرل معاشرے کے قیام کی جانب اہم قدم ہے، 60کی دہائی کے بعد2011میں مرحوم شاہ عبداللہ کے دور میں میونسپل الیکشن کا انعقاد اور خواتین کو ووٹ کا حق مستقبل قریب میں بادشاہت کے سایہ میں جمہوریت کے فروغ کی طرف ایک اشارہ تھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان کے وڑن 2030 پر سعودی معاشرہ اور اسلامی دنیا میں تحفظات ہیں ،چند ماہ قبل ریاض میں نئے ثقافتی شہر کے منصوبے کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں محمد بن سلمان کا کہناتھاکہ ہم اب تک جو کچھ کرتے رہے ہیں اس سے جان چھڑا نا اہم ہے، ایم بی ایس نے کہا کہ انہوں نے سعودی معاشرے کیلئے 1979 سے پہلے کے سعودی عرب کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ شہزادہ عالی مقام افغان جہاد کے اثرات سے پاک ، ریڈیکل مذہبی طبقے کی بالا دستی سے آزاد اور ہمہ جہت سمتوں میں ترقی کے سفر پر گامزن مملکت کی خواہش کرر ہے ہیں۔

شہزادے کے اصلاحاتی پروگرام میں ایک اور رکاوٹ ریاض کے پرتعیش محلات میں محبوس بلین ڈالر شہزادے بھی ہیں جو ابھی نہیں وقت آنے پر اصلاحات پر عمل مشکل بناسکتے ہیں، سعودی شاہی خاندان محمد بن سلمان کی ریفارمز کو یقینی طور پر الجھاوؤ کی نظروں سے دیکھے گاشاہی خاندان میں ریفارمز کو بادشاہت کے خاتمے اور جمہوری سعودی عرب کے قیام کی نظر سے بھی دیکھا جائیگا ، نتیجتاً ایم بی ایس مشکلات اور رکاوٹوں کا شکار ہو سکتے ہیں ، شاہی خاندان کی مخالفت کا سبب طاقت ور افراد پر کرپشن کے الزا مات لگا کر پس دیوار زندان کرنا اور اثاثے ضبط رکرکے بھاری جرمانوں کی وصولی سے ملکی خسارے پر قابو پانے کیلئے کی جانے والی منصوبہ بندی کو یقینی طورپر اچھی نظر سے نہیں دیکھا جارہا۔

وڑن 2030 کے تحت کثیر لاگت سے ثقافتی شہر کے قیام کا منصوبہ بھی خاصا دھماکا خیز ہے خصوصاًمملکت کی مذہبی قیادت کے نزدیک، شاہی اقتدار کو ہمیشہ سے مضبوکرتی مذہبی قیادت اور قبائل شرعی قوانین کے سمٹنے پر قطعی خاموش نہیں رہیں گے،علما کی مخالفت شہز اد ے کو عوامی حمایت میں واضح کمی کے خطرناک بحران میں مبتلا کرسکتی ہے عین اس وقت جب معاشی صورتحال بھی دگر گوں ہو، بین الا قوامی سطح پر وڑن 2030 میں سیاحت کے فروغ اور تیل کے علاوہ آمدنی کے مزید نئے قومی ذرائع کے حصول کی کوششو کو خاصی پذیرائی حاصل ہور ہی ہے ، امریکی ریاست الاسکا میں تیل اور شیل گیس کے وسیع ذخائر کی دریافت ،متبادل اور محفوظ ذرائع توانائی کے حصول کی کوششوں میں ہونے والی عالمی پیش رفت کے بعدتیل کی اجارہ دار معیشتوں کو شدید دھچکا پہنچا ہے،ایسے میں آمدنی کے مزید ذرائع کا حصول ایک اچھی کاوش شمار ہوگی، بہر حال حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کو پالیسیوں میں توازن کی ضرور ت ہے، اتحاد بین السلامی کا داعی بن کر مسلم دنیا باالخصوص عرب ممالک کو آپس کے اور بیرونی تصادم سے بچاتے ہوئے معاشی طاقت کے بل بوتے پر آگے بڑھنا اور اپنا مقام بنانا ہو گا، جس کے لئے ضروری ہے کہ یک دم غیر ضروری محاذ کھولنے سے پرہیز اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل دریافت کرنا ہوگا،یقینی طور پر یہی ایک بقا کا راستہ ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Muhammad Bin Sultan Ka Saudi Arab Chelges ka Samna kr payega is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.