اولڈ ایج ہومز ۔۔۔مغربی ثقافت کا اثر یا تربیت کی کمی

ہمارے مذہب اسلام میں اللہ کی اطاعت و فرمانبردای کے بعد اگر کسی کو اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے ماں ،باپ ہیں الحمد اللہ ہم جس معاشرے میں ہیں وہاں ہم اپنے والدین کو عزت سے نوازتے ہیں

Ayman Ayubi ایمن ایوبی جمعہ 12 اکتوبر 2018

Old Age Homes
دور حاضر کی اگر ہم بات کریں تو یہ نوجوان نسل بدقسمتی سے مغربی اثر سے اتنا متاثر ہو چکی ہے اور ان کے رسم رواج کو اپنانے کی دوڑ میں اتنا آگے نکل چکی ہے کہ اچھے برے کی تمیز کھو چکی ہے اور موجودہ دور میں اولڈ ایج ہومز کی بڑھتی ہوئی شرح بھی انہیں اثرات کا اک اثر ہے اولڈ ایج ہومز کی اگر ہم بات کریں تو ہم بات مکمل پاکستان کی نہیں کریں گے واضع رہے کہ ہم بات کریں شہری علاقوں کی کیونکہ دیہی علاقوں میں والدین کو اولڈ ایج ہومز بھیجنے کا کوئی تصور نہیں ہے یہ اثر ہم پڑھی لکھی با شعور عوام /فیملیز میں پایا جاتاہے ۔

اس سروے کے مطابق پاکستان میں موجو د اولڈ ایج ہومز میں آنے والے یا داخل کرائے جانے والے والدین میں 73% شرح با شعور اور پڑھے لکھے گھرانوں کی ہے جب کہ غریب طبقات کو دیکھا جاءئے تو وہ انپڑ اور جاہل ہونے کے باوجود اپنے والدین کو کسی قسم کے اداروں میں جمع نہیں کروا رہے ہوتے اور اگر کرو ابھی رہے ہوتے توا سکی شرح کم ازکم اس سے بہت کم ہے جو کہ اک با شعور اور پڑھے لکھے طبقے کی ہے ۔

(جاری ہے)


ہمارے مذہب اسلام میں اللہ کی اطاعت و فرمانبردای کے بعد اگر کسی کو اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے ماں ،باپ ہیں الحمد اللہ ہم جس معاشرے میں ہیں وہاں ہم اپنے والدین کو عزت سے نوازتے ہیں لیکن بد قسمتی سے اسی معاشرے میں جہاں وقت کے ساتھ ساتھ اور بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اسی تبدیلی میں اک پاکستان میں بڑھتے ہوئے اولد ایج ہومز کی شرح ہے ۔


کئی گھروں میں والدین خود اپنی مرضی سے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے آشیانے کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور کئی گھروں میں بچے خود اپنے والدین کو اولڈ ایج ہومز چھوڑ کر آرہے ہوتے ہیں اور اولڈ ایج ہومز چھوڑکر آنے کی کتنی وجوہات میں سے چند ایک یہ ہیں ۔
*    بچے مستقبل سنوارنے کی روڈ میں انتا آگے نکل چکے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے والدین کو دینے کئے لئے وقت ہی نہیں ہوتا
*    کتنی جگہوں پر بچے اپنی فیملیز بنانے کے بعد اپنے بیوی بچے اور اپنے سماجی تعلقات میں اتنا مصرورف ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ ماں ،باپ کو وقت دینانہیں چاہتے۔


*    انا اور خود پرستی کی جنگ جو کہ صدیوں سے ساس اور بہوکے درمیان چلی آرہی ہوتی ہے اس سے امن کے حصول کے لئے اکثر بیٹے اپنی ماؤں کو اولڈ ایج ہومز چھوڑکر آرہے ہوتے ہیں ۔
*    بچے خود بیرون ممالک میں سیٹلڈ Settledہو رہے ہوتے ہیں اور والدین کو اولڈ ایج ہومز میں جمع کروا رہے ہوتے ہیں ۔
*    بچے موجود دور کے اثر کے مطابق و آزادی چاہتے ہے جہاں ان کو دور دور تک کوئی روکنے والا موجود نہ ہو۔


ان حالات کے پیش نظر کافی حد تک ہاتھ والدین کا بھی ہے کیونکہ والدین نئی نسل کو یہ تو بتا رہے ہیں کہ زندگی کا مقصد کچھ حاصل کرنے ہے اور پڑھ لکھ کر اک کامیاب انسان بننا ہے والدین بچوں کی پڑھائی پر تو توجہ دے رہے ہیں لیکن آج تک معاشرے میں بچے تربیت سے بالکل خالی ہیں ۔والدین بچوں کا ا دب آداب کی بلکل تربیت نہیں دے رہے ہیں بچے اسی تربیت سے بالکل خال ہیں کہ اس معاشرے میں رہتے ہوئے کس طرح صبر اور برداشت سے رہنا چاہیے ۔

جو ناگوار گزرنے والی چیز پر درعمل کا اظہار کر نے کے بجائے اس پر صبر اور تحمل کا مظاہر ہ کریں ہم اس دور میں بچوں کو یہ تو بتا رہے ہیں کہ اگر تم یہ کرو گے تو اک کامیاب انسان بن جاؤ گے لیکن یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ بیٹا تم اس میں نا کام بھی ہو سکتے ہو ہم صرف بچوں کو کامیابی کے سبق پڑھاتے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ اگر کامیاب نہیں ہوئے اور فیل ہو گئے تو اس صورت میں تہمیں کیا کرنا چاہیے والدین بچوں کو یہ نہیں بتارہے کہ زندی کے مقاصد صرف پڑھنا لکھنا اور کامیاب انسان بننا نہیں ہے اس سب کے ساتھ ساتھ زندگی اصل ذمہ داریوں میں ان کے ماں باپ بھی ہیں ،نئی نوجوان نسل اسوقت اپنی عارضی خوشیوں کی خاطر اپنے فرائض سے روز بروز دہوتی جا رہی ہے ہم صرف یہ دیکھانا چاہتے ہیں کہ فی الحال ہمیں خوشی کیا چیز دے رہی ھے ۔

ہم اپنی عارضی خوشییوں کی خاطر اس حقیقت کو بہت پیچھے کرتے جا رہے ہیں جو ہماری بنیاد ہے ترقی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان اپنی بنیاد چھوڑ دے اور جو انسان اپنی جڑیں چھوڑ دیتا ہے وہ معاشرہ دن بہ دن کمزور ہوتا جاتا ہے اور جو نیا معاشرہ اس تشکیل چا رہا ہے تربیت اور تہذیب سے بالکل عادی ہو چکا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں اور ہمارے مذہب میں بھی بزرگوں کی دعاؤں کی بہت اہمیت ہے اور ماں باپ کی خدمت ہمارے مذہب میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے ۔

اسلامی معاشرہ دن رات والدین کے حق میں دعائیں کرنے کا حکم دیتا ہے یہ کونسا معاشرہ ہے جو والدین کو ان کے بڑھاپے میں اولڈ ایج ہومز میں داخل کرانے کے فروغ کو پروان چھڑا رہا ہے اگر آج بروقت اس کی روک تھام نہیں کی گئی تو آنے والی نسل پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوں گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Old Age Homes is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 October 2018 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.