آن لائین کلاسز اور درپیش مسائل

ترقی یافتہ ممالک کی بہترین اور دنیا کی مشہور اور نامور یونیورسٹیز نے آن لائین کلاسز کا آغاز نہیں کیا تو پھر پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک جو قرضوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتے، کی جامعات کیسے آن لائن کلاسز کو چلا سکتی ہیں

ہفتہ 25 اپریل 2020

online classes aur darpesh masail
تحریر: چوہدری شہریار گجر

دنیا بھر کے دوسرے ممالک کی طرح جب کورونا وائرس نے پاکستان میں بھی اپنے قدم جمانا شروع کیے تو خکومتِ وقت نے دوسرے حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا! لاک ڈاؤن کا آغاز تعلیمی اداروں سے ہوا اور تمام نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے بند کیے گئے۔ ملک کی تمام سرکاری اور نجی جامعات نے طالب علموں کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوے آن لائین کلاسز کا آغاز کیا جو ایک قابل تعریف اور قابل داد اقدام تھا لیکن دوسری طرف اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ فیصلے اور اقدامات کرنے سے پہلے اپنے وسائل اور نظام کو مدِنظر رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے چونکہ اس ملک کہ اندر یہ نا ختم ہونے والی رسم چلتی آ رہی ہے کہ یہاں صرف اقدامات ہی کیے جاتے ہیں چاہے ان اقدامات کا نتیجہ صفر ہی کیوں نہ ہو۔

(جاری ہے)

 آن لائین کلاسز کی پالیسی بنانے والے وہ لوگ ہیں جو فائبر آپٹکس جیسے جدید انٹرنیٹ کی سہولت رکھتے ہیں اور بڑے اور ترقی یافتہ شہروں کہ اندر رہائش پذیر ہیں۔ کیا پالیسی بنانے والوں کو اس کا علم نہیں کہ ہم اس نظام کو کن لوگوں پر نافذ کر رہے ہیں؟ کیا اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ تعلیمی اداروں کے اندر ساٹھ(60) فیصد طلبہ کی آبادی دیہاتی علاقوں اور چھوٹے شہروں سے تعلق رکھتی ہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے؟ کیا ہماری تعلیمی انتظامیہ اس بات سے ناآشنا ہے کہ کوئی بھی نیا نظام چلانے سے پہلے ایک محدود علاقے پر اُس کا تجربہ کیا جاتا ہے لیکن آن لائن کلاسز کا تو اس سے پہلے کوئی تجربہ نہیں کیا گیا تو پھر کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ ایک نیا اور انجان نظام بغیر کسے تجربے کے طالبعلموں کہ لیے مفید ثابت ہو گا۔

 دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک کی بہترین اور دنیا کی مشہور اور نامور یونیورسٹیز نے آن لائین کلاسز کا آغاز نہیں کیا تو پھر پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک جو قرضوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتے، کی جامعات کیسے آن لائن کلاسز کو چلا سکتی ہیں ان کہ پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے۔ وہ! ایک مشہور مہاورہ ہے کہ!“پاؤں اتنے ہی پھیلاو جتنی چادر ہو”جب ہمارے پاس کوئی جدید آن لائین سسٹم ہی موجود نہیں تو پھر ایسے اقدامات کرنے کا فائدہ کیا یہ اقدامات صرف بڑے شہروں سے تعلق رکھنے والے سٹوڈنٹس کے لیے بڑے شہروں میں رہنے والی جدید سہولیات سے مستفید اتنظامیہ صرف دیہاتی طالبعلموں کا استحصال کرنے کے لیے کر رہی ہے؟ تقریباً ایک ماہ ھو چکا ہے آن لائین کلاسز کو شروع ہوئے تو کیا انتظامیہ نے اس بات کو جاننے کی کوشش کی کہ طالبعلم کن مشکلات سے گزر رہے ہیں مگر اس بات سے انتظامیہ کو کیا غرض انتظامیہ کو غرض ہے تو صرف فیسوں سے اور سیشن مکمل کرانے سے۔

چونکہ میں خود جامعہ پنجاب کے شعبہ ابلاغیات کا طالبعلم ہوں اور اس آن لائین سسٹم کا حصہ ہوں، اور ایک دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ میں کن مشکلات کا شکار ہوں۔
 یہاں آن لائین کلاس لینے کہ لیے کبھی چھت پر تو کبھی گلیوں میں اور کبھی زمینوں میں چکر لگانے پڑتے ہیں تاکہ انٹرنیٹ سروس بہتر رہے مگر ایسی ذلالت اور مشقت کا نتیجہ بھی صفر ہی رہتا ہے۔

یہ مسئلہ صرف میرا نہیں بلکہ میرے جیسے ہزاروں سٹوڈنٹس کا ہے۔لاک ڈاؤن کے حالات میں عوام دو وقت کی روٹی کھانے سے مجبور ہے تو مہنگے انٹرنیٹ پیکجز کہا سے لگائے اور اگر بات کی جائے لیکچر کی تو اس کی سمجھ تو سو میں سے بڑی مشکل سے پانچ فیصد آتی ہو گی یہاں اس مسئلے کا کوئی بہتر حل بھی سوچا جا سکتا تھا مگر ابھی بھی وقت ہے انتظامیہ اور خکومتِ وقت کو چاہیے کہ اس آن لائین سسٹم کو ختم کیا جائے یہ سرا سر طلبہ کہ ساتھ کِھلواڑ ہے اور دیہاتی طلبہ کا استحصال ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

online classes aur darpesh masail is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 April 2020 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.