پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے شکار کی خواہاں

ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کا اتحاد کراچی کے مفاد میں تھا

ہفتہ 25 نومبر 2017

People party MQM k Shikar Ki Khawaha
شہزاد چغتائی:
کراچی میں مہاجر ووٹ کو بچانے کی کوشش میں خود کو شہر کا نمائندہ قرار دینے کے دعویٰ داروں نے ناکام بنا دیا۔ جس کیساتھ ہی پیپلز پارٹی کی اُمید بند ھ گئی اور مہاجر گرینڈ الائنس ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ کراچی کے دانشور اعتراف کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کیلئے اسٹیبلشمنٹ کا پلان کراچی اور شہریوں کے مفاد میں تھا لیکن اسے مصطفےٰ کمال کے جوش خطابت اور ایم کیو ایم پاکستان کے ان رہنماؤں نے سبوتاثر کردیا جو خود مصطفےٰ کمال کے ساتھ بے آرام محسوس کرتے ہیں۔

اس طرح کراچی کے خلاف ایک اور سازش کامیاب ہوگئی ، سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ 67ء سے اب تک جمہوریت قیادت مارشل لاء دور میں پلی بڑھی ذوالفقار بھٹو سابق صدر ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے جبکہ آئی جی آئس آئی نے بنائی۔

(جاری ہے)

سب سیاستدانوں کو خفیہ فنڈ سے پیسہ ملتا ہے اور یہ سیاستدان رات اسٹیبلشمنٹ پر برستے رہتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اگر ایم کیو ایم کو لٹنے سے بچانے کی کوشش کررہی تھی تو کیا برا کررہی تھی؟ کراچی میں یہ بحث ہورہی ہے کہ ایم کیو ایم کی قوت کون منتشر کرنا چاہتا ہے اور اس سے کس جماعت کو فائدہ ہوگا؟ بعض تجزیہ نگار اس پلان کا خالق پیپلز پارٹی کو قرار دے رہے ہیں جو کراچی کا سیاسی خلاپر کرنا چاہتی ہے۔

ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا اتحاد دونوں جماعتوں کے مفاد میں ہے، اگر یہ اسٹیبلشمنٹ کا پلان ہے ، تب بھی اس سے کراچی کے ووٹرز کو فائدہ ہے کہ ان کا مینڈیٹ منتشر نہ ہو۔ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کی دھڑے بندی سے فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے ڈاکٹر عاصم نے ایم کیو ایم کے 23 ارکان کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے کی پیش کشکی ہے۔ جب بات نہ بنی تو فریال تالپور ڈاکٹر عاصم اور فاروق ستار ملاقات پر برس پڑیں اور ڈاکٹر عاصم کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کا اعلان کردیا۔

حالانکہ ڈاکٹر عاصم سابق صدر کی اجازت کے بغیرڈاکٹر فاروق ستار سے ملنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اگر دونوں جماعتیں ایک ہوجاتی تو پیپلز پارٹی کراچی کے مینڈیٹ پر شب خون نہیں مار پائے گی۔ کراچی کے شہریوں کے ضمنی انتخابات کے تجربات بہت تلخ ہیں کیونکہ حکومتی طاقت کے بل بوتے پر دونوں نشستیں پیپلز پارٹی نے جیت لی تھی۔ ایم کیو ایم کے 23 ارکان کوپیپلز پارٹی میں سیاسی پناہ میں مل گئی تو یہ ایک ذاتی فائدہ ہوگا اور پارٹی منتشر ہوجائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار سمیت پوری ایم کیو ایم پاکستان سیاسی پناہ کی تلاش میں ہے ۔ پہلے سارے راستے پاک سرزمین پارٹی کی جانب جارہے تھے اب پیپلز پارٹی بھی سودا بیچنے میدان میں اُتر آئی۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ 23 ارکان اسمبلی آصف زرداری کے کسی کام کے نہیں وہ سب مل کر الیکشن میں چند ہزار ووٹ حاصل نہیں کرسکتے۔ شاید آصف زرداری سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے درمیان مختصر صلح کے باد دوبارہ شدید کشیدگی پر سکون کا سانس لیا، حالات نے پیپلز پارٹی کو نیا حوصلہ دیا ہے۔ سابق صدر سیاسی گرداب میں پھنسی متحدہ کو بدستور دام میں لانے کے مشن پر ہیں۔ ڈاکٹر عاصم نے پی ایس پی کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مشترکہ خطرہ قرار دیا اور ڈاکٹر فاروق ستار کو پیشکش کی ہے کہ سیاسی تعاون کے عوض ایم کیو ایم کے بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دیئے جاسکتے ہیں ۔

پیپلز پارٹی ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھیوں کو مہمان بنا کر رکھنا چاہتی ہے تاکہ پاک سرزمین پارٹی شب خون نہ مارسکے وہ ایم کیو ایم کو سیاسی سہارا دینا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے ایم کیو ایم کی جگہ پاک سرزمین پارٹی نے لے لی تو پیپلز پارٹی کو نقصان ہوگا۔ آصف زرداری نے مشورہ دیا کہ ایم کیو ایم کو قدرتی طور پر سنبھلنے کا جو موقع ملا ہے اس ضائع نہیں ہونا چاہیے لیکن سابق صدر شایدیہ بھول گئے کہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم کا اتحاد در حقیقت پیپلز پارٹی کے خلاف ہے تاکہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے ذریعہ کراچی اور اندرون سندھ میں پیر پگارا کے ذریعہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکا جاسکے لیکن یہ راز قبل ازوقت پاش ہوگیا ، جس سے پیپلز پارٹی کا فائدہ ہوا۔

آنے والوں دنوں میں نقصان ہوگا۔ کیونکہ شطرنج کی بساط پر سیاسی سائنسدان آصف زرداری کو مات پر مات ہورہی ہے اور عُقاب ان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر پاؤں تلے سے زمین کھینچ رہے ہیں۔ فاروق ستار نے کہ انجیئرڈ سیاست نہیں چلے گی، اُنہوں نے زبان کھولنے کی جانب اشارہ کیا۔ گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ فاروق ستار نے کہا تھا کہ ان پر دباؤ ہے ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا اتحاد ختم ہونے کے بعد ان کو ملانے والوں نے نئے آپریشن پر غور شروع کردیا ہے جو ایم کیو ایم پر پابندی کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔

ایم کیو ایم پابندی سے بچنا چاہتی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ جیت مصطفی کمال کی ہوگی ۔ بدھ کو مصطفی کمال نے میدان مار لیا تھا لیکن زبان کو تیزی طراری نے میز اُلٹ دی۔ ادھر الطاف حسین سے نجات حاصل کرنے والے بہت عجلت میں ہیں۔ جس کے باعث معاملات بگڑ گئے وہ بہت زیادہ غلطیاں کررہے ہیں جس کی وجہ سے ایم کیوایم پاکستان جیسی کمزور اور ناتوان جماعت تن کر کھڑی ہوگئی ہے۔

فاروق ستار نے پاک سر زمین پارٹی سے اتحاد کا فیصلہ پابندی کی اطلاعات پر کیا تھا لیکن وہ اس اتحاد کو باوقار انداز میں آگے بڑھانے کے خواہاں تھے لیکن مصطفی کمال کے جذباتی پن کی وجہ معاملہ بگڑ گیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما بھی اتحاد نما انضمام سے خو ش نہیں تھے۔ مصطفی کمال پوری ایم کیو ایم کو راتوں رات ٹیک اوور کرنا چاہتے تھے پریس کانفرنس کے دوران ہی دونوں جماعتوں کے درمیان نئی پارٹی کی قیادت پر لڑائی شروع ہوگئی ۔

دونوں جماعتوں نے خود کو لڑکے والا کہنا شروع کردیا۔ ایم کیو ایم زیادہ حصہ چاہتی تھی اس کی خواہش تھی قیادت اس کوملے۔ مصطفی کمال کے اس اعلان سے بھی گڑ بڑہوگئی کہ اب ایم کیو ایم نہیں رہے گی ، جس کے بعد ایک جانب مصطفی کمال کے خلاف بغاوت ہوگئی بلکہ عامر خان سمیت سب نے کہا ایم کیو ایم کے نام اور پتنگ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ رابطہ کمیٹی نے یہ فیصلہ فاروق ستار کی غیر موجودگی میں کیا ایم کیوایم اپنے نام اور پتنگ کے انتخابی نشان سے دستبردار نہیں ہوگی۔

اس کے بعد فاروق ستارسے کہا گیا کہ وہ اس کی توثیق کا اعلان کریں۔ جس کے بعد فاروق     ستار نے اپنی زندگی کا ماسٹر اسٹروک کھیلااور سیاست کے پیمانے بدل گئے ۔ مصطفی کمال منہ تکتے رہ گئے جو فرنٹ فٹ پر تھے وہ بیک فٹ پر چلے گئے۔ ڈاکٹر فاروق ستار 8 ماہ تک مصطفی کمال سے خفیہ مذاکرات کرتے رہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ تناؤ اور دباؤ کے ماحول میں ڈاکٹر فاروق ستار نے الگ صوبے شوشہ چھوڑا اور پیپلز پارٹی کی نیندیں اُڑ گئیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما ایم کی ایم اور فاروق ستار پر برس پڑے اُنہوں نے کہا کہ سندھ تقسیم ہو ا تو خون کی ندیاں بہہ جائیں گی، ڈاکٹر فاروق ستار کے دوبار فعال ہونے کے بعد ایم کیو ایم پر پابندی کی افواہیں ایک بار پھر اُڑنے لگیں۔ بہر حال ایم کیو ایم اور پی اسی پی رہنماؤں کی رگوں میں شامل پریس کانفرنس کے جنون کے باعث افسانہ بن گیا۔ وٴ

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

People party MQM k Shikar Ki Khawaha is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.