پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان رابطے بحال

جب عمران خان نے سابق صدر آصف علی زرداری کو للکارا تھا تو سیاسی حلقوں نے عمران خان کو ا حمق سیاستدان قرار دیا تھا۔لیکن سیاسی حلقے اس سے اتفاق نہیں کرتے ان کا خیال ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کیلئے واضح پیغام تھا

جمعرات 10 اگست 2017

People's Party Our Muslim League K Darmiyan Rabty Bahal
شہزاد چغتائی:
وزیراعظم کی نااہلی کے بعد پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ کے درمیان مفاہمت کی سیاست زندہ کرنے پر اتفاق ہوگیا اور دونوں جماعتوں کے درمیان رابطے بحال ہوگئے۔حالات کے جبر اور نظریہ ضرورت نے میثاق جمہوریت کی گنجائش پیدا کردی ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما اس طریقہ کار کی کھل کر مخالفت کررہے ہیں۔

جس کے تحت وزیراعظم کو بے دخل کیا گیا ہے۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی اورسندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے ایک دن میں سارا وزن سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے پلڑے میں ڈال دیا سراج درانی نے کہا کہ پارلیمنٹ پر حملے کا نیا طریقہ ڈھونڈ لیا گیا ہے پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کو سپریم ادارہ سمجھتی ہے۔پیپلز پارٹی کے ذرائع نے نوائے وقت کو بتایا ہے کہ 6263کو ختم کرنے کا فیصلہ سابق صدر آصف علی زرداری مشاورت کے بعد ہی کرسکتے ہیں اس دوران وہ بلاول بھٹو اور فریال تالپور کو اعتماد میں لیں گے۔

(جاری ہے)

دونوں جماعتوں کے درمیان آئین کا آرٹیکل 62 63 ختم کرنے کیلئے ابتدائی رابطے ہوگئے۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اورسابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان گلے شکووں کے بعد بات آگے بڑھی ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کو بحران سے نکالنے پر نیم رضا مند ہوگئے ہیں جس کے ساتھ مفاہمت کی سیاست زندہ ہونے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔

چترال کے جلسہ عام میں بلاول بھٹو مسلم لیگ اور سابق وزیراعظم نواز شریف پر برستے رہے۔ انہوںنے آئین کے آرٹیکل 6263 کی مخالفت کی اور اس کو آمریت کی یادگار قرار دیا کہ لیکن آئین کے اس آرٹیکل کو ختم کرنے کا عندیہ نہیں دیا۔سیاسی حلقوں نے دعویٰ کیا ہے کہ آنے والا طوفان تیزی کے ساتھ دونوں جماعتوں کی جا نب بڑھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت وزیراعظم کو نااہل قرار دینے پر خوش نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہماری باری بھی آسکتی ہے۔

سندھ پر آپریشن تیز ہونے کے بادل بھی منڈلا رہے ہیں۔بات آگے بڑھی تو دونوں جماعتیں مل کر 6263 کو ختم کردیں گی۔نئی افہام تفہیم کے تحت د ونوں جماعتیں ڈرامائی انداز میں آئین میںترامیم کرسکتی ہیں اور اس شق کے تحت دی جا نے والی نااہلی کی سزائیں کالعدم قرار دے سکتی ہیں۔ جس کے ساتھ محمد نواز شریف بحال ہوجائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پانامہ کیس کو پارلیمنٹ کے اندر حل کرناچاہتی تھی لیکن مسلم لیگ(ن) نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر عدالت کے دائرہ کار کو تسلیم کرلیا۔

اسلام آباد میں تبدیلی کے بعد سندھ میں دوسرا سیاسی دھماکہ ہونے کی پیش گوئی کی گئی لیکن سندھ میں اس قدر تبدیلی آئی کہ کابینہ میں توسیع پر غور ہونے لگا۔ جب عمران خان نے سابق صدر آصف علی زرداری کو للکارا تھا تو سیاسی حلقوں نے عمران خان کو ا حمق سیاستدان قرار دیا تھا۔لیکن سیاسی حلقے اس سے اتفاق نہیں کرتے ان کا خیال ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کیلئے واضح پیغام تھا کہ وہ مسلم لیگ کو بچانے اورآئین کے آرٹیکل 62 63 کو ختم کرنے کیلئے میدان میں نہ اترے لیکن پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ(ن) کے درمیان ہم آہنگی کی بیل کہیں نہ کہیں منڈھے ضرور چڑھ رہی ہے کیونکہ دونوں جماعتوں کے مفادات جمہوریت پارلیمنٹ اورمیثاق جمہوریت کے ساتھ وابستہ ہیں۔

ایک دن دونوں جماعتیں سب کو سرپرائز دے دیں گی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے حالانکہ وزیراعظم محمد نواز شریف کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ احتجاجی سیاست کو ترک کردیں لیکن یہ دو پارٹنر کا آپس کا اختلاف ہے جمہوریت پر پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ صدر ممنون حسین اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایک کشتی کے سوار ہیں اس وقت صوبائی حکومت وفاق سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ 18ویں ترمیم کے تحت سندھ ایک ”ملک“ ہے اور اس قدر اختیارات حاصل ہیں جو ڈکٹیٹروں کو نہیں مل سکے۔

ماضی میں دونوں جماعتیں سیاسی ضرورتوں اورمفادات کے تحت ایک ہوچکی ہیں ایم آر ڈی کی تحریک میں پیپلز پارٹی کو ایسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنا پڑا تھا جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔ جس پربیگم نصرت بھٹو کو یہ کہنا پڑا کہ جمہوریت کیلئے ان کو بھٹو کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماﺅں کا خیال ہے کہ آج کسی کی باری ہے تو کل ہماری بھی باری آسکتی ہے۔

اس وقت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جوکچھ ہورہا ہے اس پر پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت کو تشویش ہے وہ کہتے ہیں جب تک نواز شریف پرائم منسٹر ہاﺅس میں موجود تھے سابق صدر آصف علی زرداری بلاروک ٹوک پاکستان سے آتے جاتے تھے حالات نے دونوں جماعتوں کو ایک کشتی کا سوار بنا دیا ہے جس کے بعد دونوں جماعتیں اپنی اپنی بقاءکیلئے ایک دوسرے سے تعاون پر مجبور ہیں۔

اس دوران پیپلز پارٹی کی قیادت نے سندھ کابینہ میں ردوبدل کی منظوری دیدی ہے۔ جس کے بعد کابینہ میں نئے وزراءشامل کئے جائیں گے پرانے فارغ کئے جائیں گے۔پیپلز پارٹی نے حالانکہ محمد نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا خیرمقدم کیا ہے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت بہت خوش نہیں۔ خدشات سرابھار رہے ہیں۔ انجانے اندیشے موجود ہیں جشن تو تحریک انصاف نے بھی نہیں منایا کیونکہ عمران خان پر بھی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔

نواز شریف نے احتجاجی سیاست شروع کردی اورزبان بندی ختم کرنے کا اعلان کیا تو بڑے بڑے ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اس وقت شریف فیملی کو سیاست سے آﺅٹ کرنے اور احتساب عدالتوں سے سزا دلوانے کا پروگرام موجود ہے بظاہر حالات تصادم اور محاذ آرائی کی جانب جارہے ہیں لیکن شریف خاندان تناﺅ میںا ضافہ نہیں چاہتا ہے مخالفین کی خواہش ہے کہ شہباز شریف سمیت شریف خاندان کو آئندہ الیکشن سے قبل سیاسی افق سے ہٹا دیاجائے۔

لیکن نوازشریف چاہتے ہیں کہ ماحول کشیدہ نہ ہو۔سابق صدر آصف علی زرداری پہلے دن سے مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے ہونے کیلئے بے چین تھے وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ سازش کے بارے میں اعتماد میں لے لیکن یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ کی قیادت پیپلز پارٹی کو لفٹ دینے کیلئے تیار نہ تھی لیکن اب میثاق جمہوریت کو جھاڑ پونچھ کرنکالنے کیلئے تیار ہے۔

مسلم لیگ(ن) کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اب تک پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوسکی اورتوقعات کے مطابق 40سے 60 ارکان قومی اسمبلی نہیں ٹوٹ سکے۔ عدالتی فیصلہ کہ بعد شاہد خاقان عباسی کا انتخاب مسلم لیگ (ن) کی پہلی کامیابی اور فتح ہے۔مسلم لیگ (ق) پہلی ناکامی کے بعد زخم چاٹ رہی ہے۔ اب ساری امیدیں احتساب عدالتوں سے وابستہ کی گئی ہیں۔ لیکن احتساب عدالتوں کے کام کرنے کے بعد پہیہ الٹا چل جائے گا۔

محمد نواز شریف کی مقبولیت کا گراف آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگاہے۔ بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے پیپلز پارٹی نے سیاسی حکمت عملی وضح کرلی اور نئی صف بندی کیلئے آصف علی زرداری نے پاکستان آنے کافیصلہ کرلیا وہ اب تک مائنس ون فارمولے سے بچے ہوئے ہیں الطاف حسین اورمحمد نواز شریف زد میں آچکے ہیں۔ آصف علی زرداری نے مائنس ون سے بچنے کا حل یہ نکالا ہے کہ انہوں نے بلاول بھٹو کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا ہے خود پس منظر میں بیٹھ گئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان نئے رومان پر پیپلز پارٹی کو نہ صرف تشویش ہے بلکہ پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دوسرے رہنماﺅں نے تحفظات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ(ن) نہ صرف میثاق جمہوریت کے بندھن میں بندھے ہیں اوران کے درمیان جمہوریت کے تسلسل پر ہم آہنگی موجود ہے اب کیا پیپلز پارٹی یہ برداشت کرلے گی کہ ایم کیو ایم مسلم لیگ ن کی گود میںبیٹھ کر صوبائی حکمرانوں کو ٹف ٹائم دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

People's Party Our Muslim League K Darmiyan Rabty Bahal is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 August 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.