قومی سلامتی کے ادارے اور حکومتی رویہ

پاکستان ایک ایسی سرزمین ہے جس میں ایسے لوگ بستے ہیں جہاں بچہ بچہ اپنے ملک و قوم کی حفاظت اور سلامتی کے لیے مرمٹنے کو تیار ہے پاکستان کی ہر ماں اپنے ملک کے لیے اپنے پھول جیسے بچوں کو قربان کرنے کو تیار ہے یہ وہ جذبہ ہمت و جرات ہے جو پاکستان کی عوام اور قوم میں پایا جاتا ہے۔ ایک عرصے سے دنیا میں دہشتگردی کی جنگ جاری ہے اور اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان کی عوام اور پاک فوج نے دی ہیں

جمعرات 17 نومبر 2016

Qoumi Salamti K idare
محمد اکرم چوہدری:
پاکستان ایک ایسی سرزمین ہے جس میں ایسے لوگ بستے ہیں جہاں بچہ بچہ اپنے ملک و قوم کی حفاظت اور سلامتی کے لیے مرمٹنے کو تیار ہے پاکستان کی ہر ماں اپنے ملک کے لیے اپنے پھول جیسے بچوں کو قربان کرنے کو تیار ہے یہ وہ جذبہ ہمت و جرات ہے جو پاکستان کی عوام اور قوم میں پایا جاتا ہے۔ ایک عرصے سے دنیا میں دہشتگردی کی جنگ جاری ہے اور اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان کی عوام اور پاک فوج نے دی ہیں۔

بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر سیاسی و عسکری قیادتوں میں اختلاف طول پکڑ رہے ہیں جس کا اظہار سیاسی قیادت کی جانب سے ڈھکے چھپے، طنزیہ اور براہ راست حملوں سے ہو رہا ہے۔ پاک فوج نے چونکہ ملک بھر میں ضرب عضب کے بعد کومبنگ آپریشن شروع کر رکھا ہے اور پھر سیاستدانوں کی کرپشن کے حوالے سے بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ تو ایسے میں سیاستدانوں کا چیخنا چلانا عام بات ہے۔

(جاری ہے)

ابھی کچھ دن قبل ہمارے وزیر دفاع نے سپریم کورٹ کے سامنے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اصل امپائر سپریم کورٹ ہے باقی سب امپائرز ”دو نمبر“ ہیں۔ اب بادی النظر میں دونمبر کس کو کہا گیا یہ سب جانتے ہیں۔ اور اس کے بعد گزشتہ روز وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی خبر لیک کے حوالے سے یوٹرن لیا اور کہا کہ متنازع خبر سکیورٹی لیک نہیں تھی۔

یعنی یہ کہہ کر انہوں نے ”مٹی پاؤ“ پالیسی کو جاری رکھنے میں اہم کر دار ادا کیا۔ اگر انہوں نے اپنی حکومت کو سپورٹ کرنا ہی تھا تو کسی کو نیچا دکھا کر ایسا کرنا مضحکہ خیزی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ اس خبر سے دشمن نے جو پراپیگنڈہ کیا اس سے دنیا میں پاکستانی قوم اور سیکیورٹی اداروں کا مورال ڈاؤن ہوا۔اس کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے وزراء ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں جن سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ کہیں کچھ نہ کچھ سْلگ ضرور رہا ہے۔


حقیقت میں ہماری حکومت کا خوف بے وجہ ہے اور اسے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن دو ایسی لعنتیں ہیں جن کے خلاف کارروائی پر افواج پاکستان عدلیہ اور سول سوسائٹی ایک پیج پر ہیں لیکن سیاست دان یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف کاروائی کرواور کرپشن کے خلاف کارروائی کو چھوڑ دو۔اور ہمارے سیاستدان اس عمل سے خائف ہیں۔ انہیں دہشت گردی کے خلاف تو اقدامات منظور ہیں لیکن کرپشن کے خلاف کوئی بھی کارروائی منظورنہیں ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ کرپشن میں ملوث اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ ان پر ملک کا قانون لاگو نہیں ہوتا کیونکہ ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ چند ماہ پہلے زرداری صاحب اس لیے ناراض ہوئے کہ ان کے معتمد لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا اس پر انہوں نے فوج کو للکارا تم تو صرف تین سال کیلئے کرسی پر ہوتے ہو ہم تو سالہا سال اقتدار میں رہتے ہیں۔ انہوں نے افواج پاکستان کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کی۔

اسی طرح جب وزیر اعظم نواز شریف کی طرف اشارہ ہوا تو یہ کہا جانے لگا کہ یہ عجیب بات ہے کہ عوام حکومت کو منتخب کرتے ہیں اور کوئی مطلق العنان شخص اسے چلتا کر دیتا ہے۔ایسے موقع پر علامہ اقبال یاد آجاتے ہیں۔
آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس ملک کے بھی قومی اداروں میں دراڑیں نظر آئیں فوراََ دشمن نے اپنا فائدہ اٹھا کر اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

کسی بھی قوم کی ناکامی اچانک نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے کئی محرکات کارفرماہوتے ہیں اگران محرکات کابغورجائزہ لیا جائے تو ایک قوم کی ناکامی، بدنامی اوربدانتظامی میں ملوث کرداربھی بے نقاب ہوجاتے ہیں جوبظاہراشرافیہ کے سرخیل ہوتے ہیں۔ ناکام ہونیوالی اقوام کی بعض مخصوص عادات،خصائل، اور طرز عمل انہیں ناکام بناتا ہے اوریہ اقوام زندگی کی دوڑمیں پیچھے رہ جا تی ہیں۔

ہر آنیوالے کو نجات دہندہ سمجھ کراس کی غیر معمولی عزت افزا ئی کر نا اور پھر جلد ہی اسے ڈی گریڈ کر کے نا قدری کی سولی پرلٹکا دینا ان کاخاص وطیرہ ہوتا ہے۔ ان کی شامت اعمال کے باعث اللہ تعالیٰ ان پر اس قسم کے حکمران مسلط کر دیتاہے جو انہیں مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔احتجاج تک کرنے کاحق ان سے چھین لیا جاتاہے ان کے حکمران ان کی آنے والی نسلوں تک کا رزق ہڑپ کر جاتے ہیں۔

حکمرانوں کی بد اعمالیوں اور عیاشیوں کے سبب پیدا ہو نے والے بچے بھی ناحق مقروض ہوتے ہیں۔ اس قرض کابوجھ ان کے کندھوں پرڈال دیا جا تا ہے جو ان بیچاروں نے لیا بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے ماں باپ اس قرض سے مستفید ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے حکمران قومی مفادات کو نجی مفادات پرقربان کردیتے ہیں۔ اگر من حیث القوم اپنا جائزہ لیاجائے تو یہ تمام برائیاں ہمیں اپنے اندر کوٹ کوٹ کربھری نظر آئیں گی۔

ہمارے ہاں جمہوریت کو ایسا مقدس لفظ بنا دیاگیاہے کہ شاید اگر جمہوریت نہ ہو تو خدانخواستہ ہم سب کے سب برباد ہو جائیں، خدانخواستہ ہماراملک ٹوٹ جائے۔ ہمیں باور کروایا جاتاہے کہ ہم سب کی بقاء اور سلامتی جمہوریت میں ہی مضمر ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے زیر سایہ ہماری جمہوریت ایسی جمہوریت ہے جس سے ہزاروں آمریتیں بہتر ہیں یہ بھلا کس قسم کی جمہوریت ہے جس میں بیس کروڑ عوام کے حقوق پر دوچارسرمایہ دارسیاسی چند خاندانوں او ر مٹھی بھر افرادکاغاصبانہ قبضہ ہے اور یہ لوگ ملک وقوم کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔

ا ن پر کسی قانو ن کاا طلاق نہیں ہوتا اوریہ عناصر قوم کے ٹیکسوں پرکسی مقدس گائے کی طرح پل رہے ہیں۔مختصر یہ کہ ہماری جمہوریت کا دائرہ کار شریف خاندان ،بھٹوخاندان اور دیگر خاندانوں کے گرد ہی کیوں گھومتا ہے۔
ان خاندانوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اس وقت پاک فوج عوام کے دلوں میں گھر کر چکی ہے اور اس طرح حکومت اپنے وزیروں ، مشیروں اور اپنے ٹاؤٹوں کے ذریعے سکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے کی مذموم سازش میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور قوم متنازع خبر پر تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی منتظر ہے تاہم جب تک کہ کوئی با اختیار عدالت اس پر اپنا فیصلہ نہیں سنا دیتی عوام مطمئن نہیں ہوں گے ۔

عسکری قیادت نے بجا طور پر اس خبر کی اشاعت کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر اس کی تہ تک پہنچنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس خبر کو نواز حکومت اور عسکری قیادت کے مابین عدم اعتماد کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ ماضی میں بھی میمو گیٹ عدالت عالیہ کے فاضل جج نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ بھی حکومت کو پیش کر دی تھی جو اسے شائع کرنے کی بجائے دبائے بیٹھی ہے۔

یہ پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکہ حسین حقانی کی جانب سے سابق امریکی جنرل جیمز جونز کے توسط سے پینٹاگون کو دیئے گئے مراسلے سے متعلق ہے جس میں مبینہ طور پر درخواست کی گئی تھی کہ اگر افواج پاکستان زرداری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کریں تو امریکی افواج انہیں ایسا کرنے سے روکیں۔ ظاہر ہے حسین حقانی اتنا اہم قدم اس وقت کے صدر آصف زرداری کی ایما کے بغیر نہیں اٹھا سکتا تھا۔

چنانچہ حسین حقانی پر مقدمہ چلا اور اس کی پیشی بھی ہوئی جبکہ استغاثے کے پاکستان نژاد گواہ (جو امریکہ کا شہری تھا) نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ حسین حقانی نے اسے اس مراسلے کے بارے میں اعتماد میں لیا تھا چنانچہ تحقیقات کے دوران حسین حقانی پر مقدمے کے فیصلے تک ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس دوران موصوف قصر صدر یا ایوان وزیراعظم میں مقیم رہے اور عدالت عظمیٰ سے امریکہ جانے کی اجازت مانگی جو اس شرط پر دے دی گئی کہ وہ آئندہ پیشی پر عدالت میں حاضر ہوں گے لیکن جب انہیں آئندہ پیشی پر طلب کیا گیا تو یہ کہہ کر آنے سے انکار کردیا کہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے جبکہ ان کے مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

بہر صورت تحقیقاتی کمیشن نے میمو گیٹ کی مکمل رپورٹ حکومت کو دے دی لیکن قوم آج تک کمیشن کی رپورٹ کی منتظر ہے۔ اگر کمیشن اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ حسین حقانی پر عائد کردہ الزامات درست ہیں تو اس کی زد میں نہ صرف حسین حقانی بلکہ ان کے مربی آصف زرداری بھی آتے ہیں۔ بظاہر اس میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں ہے کیونکہ اسکے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ہیں البتہ اس وقت کی حکومت نے اس کو ملوث کرنے کی کوشش کی تھی۔

بہرکیف دعاہے کہ حکومت وقت ہوش کے ناخن لے اور ایسے اقدامات کرنے سے گریز کرے جس میں اس بات کا شائبہ نظر آئے کہ وہ پاکستان کے عوام کے بجائے کسی اور بیرونی قوت سے مدد کے طلبگار ہیں۔ انہیں علم ہونا چاہیے کہ یہ ادارے ہیں تو ملک ہے ورنہ دشمن پاکستان سے پنجہ آزمائی کے تیار بیٹھا ہے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Qoumi Salamti K idare is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 November 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.