پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح ہمارے قومی ہیرو اورحقیقی قائد ہیں آپ کو عظیم ترین رہنمااور بابائے قوم یعنی قوم کا باب بھی کہا جاتا ہے آپ کے آباوٴاجدادکا ٹھیاوارگجرات کے تھے ،پھر وہاں سے کراچی آئے اور یہاں پر 18دسمبر 1976ء کو قائداعظم کی پیدائش ہوئی ان کے دادا کا نام پونجا گوکولداس مگجی ، والد کا نام جناح پونجا ا ن کی والدہ کا نام مٹھی بائی جناح تھا۔
آپ کے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں آپ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے آپ کے بہن،بھائیوں کے نام، احمد علی جناح ، بندے علی جناح ، رحمت علی جناح ، بڑی بہن کا نام شیریں جناح ، فاطمہ جناح ، مریم جناح تھا ۔
والدین نے آپ کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا ۔ جس کے لیے آپ کو چھ سال کی عمر میں مدرستہ الاسلام میں قرآن کی تعلیم کے لیے داخل کروادیا گیا،اس کے بعد پرائمری کی تعلیم گوگل داس کے سکول سے ،اور پندرہ سال کی عمر میں میڑک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا۔
(جاری ہے)
انہوں نے 1892ء کو16سال کی عمر میں اپنی والدہ کی خواہش پر پہلی شادی اپنی چچا ذاد، 14سالہ ایمی بائی جناح سے کی ان کا اصل نام سکینہ تھا جبکہ انہیں امر بائی بھی کہا جاتا تھا ان کے والد کا نام سر کھیم تھا ۔ شادی کے چند ہی دنوں بعد قائد اعظم محمد علی جناح وکالت کی تعلیم حاصل کرنے انگلستان کے لئے روانہ ہو گئے ،اس وقت لندن میں چار بڑے ادارے تھے آپ نے خود بتایاکہ جب میں نے لنکن ان کو دیکھا کہ وہاں سید نا حضرت محمد رسولﷺ کا نام مبارک لکھا ہوا ہے دل سے آواز اٹھی ،محمد علی کسی اور قانون کے کالج میں تم داخلہ نہیں لو گے، اسی میں لو گے ۔
کیونکہ ، دنیا کے بہترین قانون دینے والوں میں ایک نام سید نا حضرت محمد رسولﷺ کا بھی شامل ہے ۔ آپ نے اسی جگہ ہی داخلہ لیا جب قائداعظم وکالت کی تعلیم کے لئے لندن میں مقیم تھے تو کراچی میں متعدی وبا پھیل گئی اس وبا میں نو عمر دولہن ایمی بائی جناح اور قائد اعظم کی والدہ مٹھی بائی جناح وفات پا گئی جس کا آپ کو بہت صدمہ ہوا۔
ایمی بائی جناح سے قائد اعظم کی کوئی اولاد نہ تھی اس کے بعد 1896میں آپ بیرسٹر بننے کے ساتھ ساتھ، ہندوستان کے پہلے کمسن بارایٹ لاء اور واحدمسلم بیرسٹر بھی بنے آپ عادتاً انگریزی زبان استعمال کرتے تھے اور یہ عادت تمام عمر رہی 1897تا1900 ء تک آپ کی وکالت کوئی خاص نہ رہی ۔
ان کے روشن مستقبل کا اس وقت آغاز ہوا جب بمبئی کے ایڈووکیٹ جنرل ، جان مولسورتھ مک ، نے انھیں اپنے چیمبر سے کام کرنے کے لئے مدعو کیا اسی سال میں بمبئی کے پریزیڈنسی مجسٹریٹ پی،ایچ، داستور کی نشت وقتی طور پر خالی ہوگئی اور اس کو حاصل کرنے میں آپ کامیاب ٹھہرے۔جب ان کو 1500روپے ماہانہ تنخواہ ملی تو انہوں نے یہ کہہ کر نوکری چھوڑ دی کہ اتنے تو میں روزانہ کی بنیادوں پر کمانا چاہتا ہوں ۔
جو کہ اس وقت بہت بڑی رقم تھی ا ور آپ نے ایسا کر کے بھی دیکھایا ۔
1904ء میں بمبئی میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنی سیاست کا باقائدہ آغاز کر دیا ۔ اس وقت ہندو مسلم اتحاد تھا۔ 1906ء میں آل انڈیا کانگریس میں شمیولیت اختیار کر لی ۔ جو اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی اور اس میں آپ 60رکنی امپیریل مشاورتی کونسل کے ممبر بن گئے ۔
لیکن اس کونسل کی اپنی کوئی حیثیت یا طاقت نہ تھی اور اس میں شامل زیادہ تر افراد غیر منتخب ،سلطنت برطانیہ کی زبان بولنے والے یورپی تھے اس کے باوجود آپ متحرک رہے اور کم عمری کی شادی کے لئے قانون اور مسلمانوں کے وقف کے حق کو قانونی شکل دینے کے لئے کام کرتے رہے۔ انہی کاوشوں کے نتیجے میں سندھرسٹ کمیٹی بنائی گئی ۔
کانگریس میں جناح جیسے خیالات رکھنے والے ارکان کی کمی تھی۔
اس کے باوجود جناح نے مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان فاصلوں کو مٹانے کی کوشش جاری رکھی ۔ 1916ء میں جب آپ مسلم لیگ کے صدر تھے ،دونوں تنظیموں نے متفقہ طور پر میشاق لکھنو پر رضامندی ظاہر کی ، اس کے تحت مختلف علاقوں میں ہندووٴں اور مسلمانوں کے لئے خاص کوٹے رکھے گئے ۔اگرچہ اس معا ہدے پر عمل درآمد نہ ہو سکا لیکن اس سے ایک فائدہ یہ ضرور ہو ا کہ دونوں جماعتوں میں تعاون کی راہیں ہموار ہو گئیں۔
1918ء میں قائداعظم نے مریم جناح سے دوسری شادی کر لی قبول اسلام سے پہلے اس کا نام رتن بائی تھا ۔شادی کے وقت وہ اپنا پارسی مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہو گئی تھی اور ان کا اسلامی نا م مریم جناح رکھا گیا تھا تاہم وہ ڈنشا پٹیٹ کی اکلوتی بیٹی تھی جو کہ معروف پارسی بینکار تھے۔ ڈنشاپٹیٹ خود ،ڈنشا مانکجی پٹیٹ کے بیٹے تھے جنہوں نے برصغیر میں پہلی کاٹن ملز کی بنیاد رکھی تھی ۔
پٹیٹ خاندان کپڑے کی صنعت میں بہت بڑا نام تھا جن کا شمار بمبئی کے امیرترین گھرانوں میں ہوتا تھا۔
مریم جناح نے 20فروری1929ء کو 29سال کی عمر میں ممبئی میں وفات پائی آپ کے بطن سے ایک ہی بیٹی پیدا ہوئی جس کا نا م دینا جناح تھا1938 ء کودینا نے مشہور صنعت کا رنیول واڈیا سے شادی کی نیول واڈیا ممتاز واڈیا خاندان سے تھا البتہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور 1943ء کو دونوں میں طلاق ہو گئی ۔
دینا واڈیا 2نومبر2017ء کو 98سال کی عمر میں نمونیا کی وجہ سے نیویارک میں وفات پا گئیں انکی اولاد میں ، نسلی واڈیا،ہیں ۔
1920ء میں قائد اعظم کانگریس سے ہندووٴ ں کی ذہنیت کو سمجھتے ہوئے علحدہ ہوگئے ۔1929ء کو نہرو رپورٹ سے مایوسی کے بعد آپ نے چودہ نکات پیش کیے۔ 1930ء میں لندن میں دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے اس میں علامہ اقبال بھی شریک تھے جنہوں نے 1930ء میں مسلم لیگ کے اجلاس آلہ آباد میں اپنا خطبہ صدارت میں ایک متحد اسلامی ریاست کے قیام کی نشاندہی کی اس کے بعد دونوں رہنماوٴں کی آپس میں ملاقات ہوئی جس میں علامہ اقبال نے اپنے نقظہ نظر کی مزید وضاحت کی۔
قائد اعظم برصغیر کی سیاست سے بیزار ہو کر واپس انگلستان چلے گئے۔1933ء میں لیاقت علی خان صاحب لندن گئے تو انہوں نے آپ کو برصغیر کی ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی مسلمانوں کی برصغیر میں قیادت کرنے کی درخواست کی جس پر آپ واپس تشریف لے آئے۔قائد اعظم کو مسلم لیگ کے اجلاس اورپارٹی کو منظم کرنے کے اختیار دیے گئے جس پر آپ نے اس جماعت کو متحرک و منظم کرنے کے لئے پورے برصغیر کا مکمل دورہ کیا اس میں آپ نے مسلمانوں کو آنے والی صورت حال اور مشکلات سے آگاہ کیا۔
اور بتایا کہ ہندوستان میں ان مسائل کا حل آسانی سے رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کے ذریعے اسلامی خود مختار ریاست کا قیام بہت ضروری ہے کیونکہ ایسی دو قومیں اکٹھی کیسے رہ سکتی ہیں جن کی تہذیب و ثقافت ایک دوسرے سے بالکل جدا گانہ اور متضادہیں ایک قوم جس گائے کو بھگوان مان کر اس کی پوجا کرتی ہے۔ دوسری قوم اس قوم کے بھگوان کو کاٹ کر بڑی خوشی سے کھاجاتی ہے توپھر ہم ان کے ساتھ اکٹھے کیسے رہے سکتے ہیں ادھر ہندو سیاست دان بھی تھے جو آزادی کی صورت میں ہندوستان کو ہندو ریاست کے طور دیکھنا چاہتے تھے ان میں ولبھ پٹیل اور مدن موہن جیسے شامل تھے یہ بھی چاہتے تھے کہ ہندووٴں کی بھی ایک علحدہ ریاست ہو جس میں گائے کی قربانی پر پابندی ہو جہاں پر سرکاری زبان ہندی ہو یعنی مکمل طور پر ہندو پرست تھے ،ان دونوں جماعتوں میں مزید جدائی اس وقت سامنے آئی جب 1937ء کے انتخابات آئے متحد صوبوں میں اتحادی جماعت بننے میں ناکام نظر آئے ۔
3ستمبر 1939ء کو نازی جرمنی کے خلاف برطانوی وزیر اعظم نوائل چیمبرلین نے جنگ کا اعلان کردیا اور وائسرائے ہند نے ہندوستانی سیاست دانوں کو خاطر میں لائے بغیر اس کی حمائت کا اعلان کر دیا ۔ جس کی وجہ سے برصغیر میں مظاہرے شروع ہوگئے جناح سے ملاقات کے بعد وائسرائے ہند نے یہ موقف اپنایا کہ جنگی صورت حال کی وجہ سے خود مختاری حکومت کا معاملہ معطل کیا جاتا ہے۔
کا نگریس نے ایک قانونی اسمبلی میں قانون کو بنانے اور آزادی کا مطالبہ کیا جب اس مطالبے کو مسترد کیا گیا تو کانگریس 10نومبر کو اپنی آٹھ صوبائی نشستوں سے مستعفی ہوگئی ان صوبوں کے معاملات جنگ کے دوران گورنر چلاتے رہے اسی ساری صورت حال کی وجہ سے قائداعظم کوبہت اہمیت دی جانے لگی اور جناح ان کے قریب تر قریب آتے چلے گئے ۔جب گوروں کو مکمل یقین ہو گیا کہ مسلمان ہمارے ساتھ ہیں تو وائسرائے ہندنے جناح سے حکومتی خود مختاری کے متعلق مسلم لیگ کی رائے پوچھی تو آپ نے کہا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں آزاد ریاست قائم ہو اور یہ معاملات سیدھے برطانیہ کے انتظامات میں مکمل ہوں اور دوقومی نظریے کی قراداد بھی پیش کی گئی جس میں انھیں مکمل خود مختاری دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
اسی طرح کے حقوق کا مطالبہ مشرقی علاقوں کے لئے بھی کیا گیا اور اس میں دیگر صوبوں میں موجود اقلیتوں کا بھی خاص طورپرذکر کیا گیا جسے 23مارچ1940ء کوپاس کر لیا گیا جو قراردار پاس ہوئی اگرکروڑوں مسلمان اس قرارداد کی پشت پر کھڑے نہ ہوتے تو یہ قراردادجو محض چند لفظوں کا مجموعہ ہی رہتی جب پاکستان بن رہا تھا تواس وقت پورے ہندوستان کی آبادی چالیس کروڑ افراد پر مشتمل تھی ،ان میں دس کروڑ مسلمان تھے اور باقی 30کروڑ دوسری قومیں تھیں۔
دس کروڑمیں سے آٹھ کروڑ مسلمان پاکستان کے حق میں تھے ۔
1946ء کے الیکشن سے ثابت ہوا جب مسلم لیگ نے ساری ہی مسلم سیٹیں100فیصد جیت لیں حالانکہ 1937ء میں مسلم لیگ نے صرف 5فیصد سیٹیں لی تھیں قائداعظم عزم صمیم اور قوت ارادی کے ایسے پیکر تھے کہ جس کے سامنے ہندوؤں اور انگریزوں کی ایک نہ چلی۔ قیام پاکستان کے وقت ہر طرف خوف کا سماں تھا ہندواور سکھ معصوم بچوں کو پکڑتے اور ان کے سینے میں برچھیاں پار کر دیتے ،بچوں کو آگ میں زندہ پھینک دیتے جن ماوٴں نے آزادی کے لئے اپنے بچے ذبح کروائے جن لوگوں نے اپنی جان مال گھر بار چھوڑکر پاکستان ہجرت کی،ان سے پوچھے کہ آزادی کیا ہے اس کا انہی لوگوں کو اندازہ ہے جنہوں نے اس کی خاطر ہزاروں جانوں کے نذرانے پیش کئے وہ لوگ بھی عظیم ہیں اور ان کی قربانیاں بھی عظیم ہیں لیکن آج کے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے کیا یہ قائد کا وہ ہی پاکستان ہے جو ہمارے قائد نے ہمیں بطور امانت دیا تھااور ہم اس امانت کے ساتھ کیا کر رہے ہیں کیا یہ قائد کاوہ ہی پاکستان ہے جس کے لئے لاکھوں مسلمان شہیدہوئے، معصوم بچے کرپانوں پر پروٴئے گئے،بہنوں نے اپنی عزت بچانے کے لئے کنووٴں میں گر کر جانیں دی،کیا یہ قائد کا وہ ہی پاکستان ہے جس کے نظریے کے تحفظ کی قسمیں کھائی ،جس کی خاطر ان کا خون بہا ،گھر لٹے،کیا یہ قائد کا وہ ہی پاکستان ہے جس کے لئے مسلمانوں نے سزائیں بھگتی،جیلوں میں قید ہوئے،مجرم بنے ۔
۔ اے قائد ہم شرمندہ ہیں۔ ہاں ہاں ہم اس بات پر بہت شرمندہ ہیں۔ ا ے قائد ہم شرمندہ ہیں ( قائد اعظم کے افکار وتعلیمات اور قیام پاکستان کیلئے خدمات کی تاریخ اتنی طویل ہے جس کا ایک کالم میں احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے)
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔