رسوم و رواج!!!

جہیز کی لعنت کی وجہ سے غریب والدین کیلئے بیٹی کورخصت کرنا مشکل ہوگیاہے۔ امراء بیٹی کے جہیزپردولت دونوں ہاتھوں سے لٹانے کی بجائے کسی فلاحی کام پر خرچ کریں تویہ دولت کا ایک بہترین مصرف ہوگا اور بیٹی والوں کوبھی چاہیے کہ سادگی سے نکاح کرنے کو ترجیح دیں

عائشہ نور ہفتہ 3 اگست 2019

rasm o riwaj
ہرقدیم یا جدید تہذیب و تمدن میں رسوم ورواج کوبڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہ ہی رسوم ورواج بالآخر پختہ روایات کوجنم دیتے ہیں۔ اگربرصغیرپاک وہندکی بات کی جائے تویہاں کئی معاشرتی روایات بڑی شدت اورآب وتاب سے موجودہیں۔ انہی میں سے ایک ''شادی '' دوافراد کوایک ہی پاکیزہ اور مقدس رشتے میں باندھنے کا باعث بنتی ہے۔ برصغیرپاک وہند میں شادی بڑے دھوم دھام سے کرنے کیلئے بہت سی رسمیں نبھانا ضروری سمجھا جاتاہے۔

اسلامی نقطہ نظرسے دیکھا جائے تو شادی کی رسم صرف شرعی نکاح اور سنت ولیمہ ہے۔ مگرپاکستان کے مسلم معاشرے میں شادی کی رسموں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ جس میں '' منگنی،مایوں،مہندی،سہرابندی, جوتا چرائی،دودھ پلائی, بارات اور رخصتی شامل ہے۔ ان ہی میں سے مشکل ترین '' جہیز'' کی قبیح رسم بھی شامل ہے۔

(جاری ہے)

ان تمام فضول رسموں کااسلام سے لوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ دراصل وسط ایشیا سے برصغیرآکرآباد ہونیوالی ''آریہ '' قوم کے طرزِمعاشرت کا حصہ ہیں۔
 آریاؤں نے ہزاروں سال قبل ہندوستان آکر '' آریہ ورت '' کی بنیادڈالی۔ اور ایک نیا مذہب '' ہندومت '' رائج کیا،ذات پات کا تصورقائم کیا اورمعاشرے لو'' برہمن،کھشتری،ویش اورشودر کی چاربنیادی جاتیوں میں تقسیم کردیا۔
 شادی بیاہ کی تمام مذکورہ رسموں کی بنیاد اسی '' آریہ ورت '' کیرائج کردہ ہندومذہب پررکھی گئی ہے۔

'' جہیز '' بھی خالصتاً ہندوانہ رسم ہے۔ ہندومذہب میں بیٹی کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ جب بیٹی کی سسرال بدائی کردی جاتی ہے تووہ ہمیشہ کیلئے پرائی تصورکرلی جاتی ہے۔ اسے '' جہیز'' میں کچھ دے دلاکر میکے والوں کی جانب سے فارغ کردیاجاتا ہے اور اس کے بعد وہ اپنے باپ کی وراثت میں حصہ دارہونیکا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ گویا '' جہیز '' کی رسم ہندو مذہب میں '' حق وراثت '' کا متبادل سمجھی جائے۔

جب اسلام برصغیر آیا توذات پات کے بندھن کسی حدتک ڈھیلے پڑگئے۔ 
برصغیرپرحملہ آورہونیوالے مسلم حکمرانوں نے جہاں وسیع علاقے فتح کیے وہاں بزرگان دین کی اشاعت اسلام کی کوششوں نے دلوں کو تسخیر کیا۔ بزرگانِ دین نے جب یہ دیکھا کہ مقامی آبادی موسیقی اور رقص کی دلدادہ ہے تو اس فن میں مسلمانوں کی بدولت نئں جہتیں '' صوفیا نہ کلام , قوالی, دھمال, طبلہ اورستاروغیرہ متعارف ہوئیں ۔

حضرت امیرخسرو طبلہ اورستار کے موجد ہیں۔ بزرگانِ دین کی تبلیغی کاوشوں سے اسلام تیزی سے برصغیر میں پھیلا, مگرنومسلم بھی اپنے ساتھ کچھ ایسے رسوم و رواج مسلم معاشرے میں ساتھ لائے جوکہ آج تک ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان میں شادی بیاہ کی ہندوانہ رسوم, تصورِ جہیز خاص طورپر قابلِ ذکرہیں۔ 
ہم نے شادی بیاہ کی رسوم کوخود پر اتنا حاوی کرلیا ہے کہ ان کے بغیرشادی کی خوشی ادھوری لگتی ہے۔

جہاں تک جہیزکا سوال ہے تو یہ ہندوانہ رسم اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ کہ کیا جہیزکوہم نے حق وراثت کا متبادل سمجھ لیا ہے؟ اگرہم اپنے مزاج پرغورکریں تو جہیزکے بغیر شادی کا تصورہمارے لیے ناممکن ہوگیاہے جوکہ ایک خالصتاً ہندوانہ رسم ہے۔ اس کے برعکس '' بیٹی کا حق وراثت '' جوکہ سراسر اسلامی شرعی اورقرآنی احکامات کے عین مطابق ہے, ہمیں بوجھ محسوس ہونے لگا ہے۔

اورہم بیٹی کے حق وراثت سے پہلوتہی کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ '' جہیز '' بڑھ چڑھ کردینا چاہتے ہیں کیونکہ ہمیں لگتاہے کہ کہیں کسی کمی بیشی کی صورت میں ہماری ناک نہ کٹ جائے۔ ہمیں لگتاہے کہ شادی بیاہ کی رسمیں دھوم دھام سے ادانہ ہوئیں تومعاشرے میں ہماری کیا عزت رہ جائیگی اورلوگ کیا کہیں گے؟
 مسجد میں نکاح کے اسلامی تصورکوہم یہ سوچ کر یکسرنظرانداز کردیتے ہیں کہ لوگ طرح طرح کی باتیں بنائیں گے ۔

گویا احکام الہی سے بڑھ کر ہندوانہ رسوم کو زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔ مگریادرکھیے کہ مرنے کے جب ہم سے قبر میں یہ ضرورسوال ہوگا کہ اپنی دولت ناجائز اور فضول کاموں میں کیوں اڑائی؟ ''یادرکھیے کہ فضول خرچ شیطان کا بھائی ہوتاہے۔'' کیا ہم نے شیطان سے برادرانہ تعلقات کی قسم کھالی ہے؟ قبرمیں آپ سے یہ سوال ضرور ہوگاکہ بیٹی کو حق وراثت دیا کہ نہیں؟ تب اپنے رب کی بارگاہ میں کیا یہ جواب دیں گے کہ میں نے توبیٹی کواتنا قیمتی جہیزدیا تھا۔

ایساہرگزنہیں ہوسکتا جہیزکبھی شرعی حق وراثت کا متبادل نہیں ہوسکتا ہے۔ اب ہمیں خود یہ فیصلہ کرناہے کہ لوگوں کی خوشنودی ہمارے لیے زیادہ اہم ہے یا اللہ تعالیٰ کی؟ اسی جہیز کی لعنت کی وجہ سے غریب والدین کیلئے بیٹی کورخصت کرنا مشکل ہوگیاہے۔ امراء بیٹی کے جہیزپردولت دونوں ہاتھوں سے لٹانے کی بجائے کسی فلاحی کام پر خرچ کریں تویہ دولت کا ایک بہترین مصرف ہوگا اور بیٹی والوں کوبھی چاہیے کہ سادگی سے نکاح کرنے کو ترجیح دیں اورشادی بیاہ کی فضول رسموں اورجہیزکے لالچ کی حوصلہ شکنی کریں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

rasm o riwaj is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 August 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.