سندھ کا تعلیمی نظام

کراچی میں تعلیمی صورتحال انتہائی بدحال، تعلیمی ایمرجنسی کا انعقاد انتہائی ضروری،وزارت تعلیم کے قلم دان کی سیاہی سوکھ چکی ہے ،وزیر تعلیم ذمہ داری نبھانے میں ناکام،سندھ حکومت کے پاس کوئی منعظم تعلیمی پالیسی نہیں 12برس سے نظامِِ تعلیم تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے

مسعود حسین جعفری ہفتہ 28 ستمبر 2019

Sindh ka taleemi nizam
 سندھ حکومت کی تعلیمی معاملات سے عدم دلچسپی نے پورے صوبے کے بچوں کا مسقبل داؤ پر لگا دیا ہے جس کی وجہ سے سرکاری نظامِ تعلیم تو تباہی کے دھانے پر کھڑا ہی ہے اسکے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات ایک تعمیری اور شاندار نصاب سے بھی محروم ہیں ۔2008تک ایک شاندار تعلیمی پالیسی کے تحت نظامِ تعلیم جاری وساری رہا مگر 2008کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں کی عدم دلچسپی نے پورے کا پورا نظام ختم کرکے رکھ دیا جس کی ماضی میں مثال ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔


سرکاری نظامِ تعلیم کو ایک خاص لابی نے ایک خاص مقصد کے تحت اجاڑا سابقہ وزریرِ تعلیم جن پر کرپشن کے مقدمات بھی بنے انہوں نے جس میں جعلی طور پر رشوت کے عویض استاتذہ کی غیر قانونی بھرتی سے لے کر تعلیمی فنڈز میں بھی خرد برد میں ملوث رہے اس کے علاوہ سب سے اہم بات جو پورے صوبے کے طلبہ و طالبات کی تشویش کا باعث بنی وہ سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ناانصافی اور سرکاری اسکولوں پرحکومت کی زیرسرپرستی جرائم پیشہ عناصر کا قبضہ ہے ۔

(جاری ہے)

صوبہ سندھ کے ایسے متعدد شہر ہیں جن پر سرکاری سرپرستی میں قبضے کرکے طلبہ کو ہراساں کیا گیا اور نجی تعلیمی اداروں کے فروغ کے لئے دباؤ ڈالا گیا جس کی وجہ سے تعلیم بھی تجارت بن گئی اور غریب متوسط طبقہ کے لئے وبال۔موجودہ صورتحال میں نجی تعلیمی ادارے جس طرح والدین کو لوٹنے کی کارروائیاں جاری ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکومتِ وقت کی نااہلی ہے کیونکہ سرکاری رٹ کو چیلنج کرنا ہی ایک جرم ہے لیکن حکومت کیوں کمزور پڑ رہی ہے یا بلیک میل ہورہی ہے اسکا جواب ملنا مشکل ہے۔

سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے یہاں تعلیم نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد کا گڑھ ہو اسکول کی عمارت کے چاروں جانب تجاوزات کی بھرمار ہے جو کہ کسی متعلقہ محکمہ کی آنکھوں سے اوجھل ہوچکیں ہیں بھینسیں پالی جاتی ہیں راتوں میں شادی بیاہ یا دیگر قسم کی غیرقانونی طور پر تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
 سرکاری اسکولوں کو محکمہ بلدیات کے تحت منتخب ڈسٹرکٹ چیئرمین کے ماتحت کردیا گیا تھا اور اسکولوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی ٹاؤن انتظامیہ کی زمہ داری میں آتا ہے لیکن ان سرکاری اسکولوں کو بھی سیاسی اکھاڑا بنادیا گیا اور بھتہ وصول کرکے سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو بھی مافیاز کے ہاتھ فروخت کردیا گیا سرکاری اسکول کی عمارت کا حال پہلے ہی سے ناگفتہ بہ حالت میں تھا اور مزید بگڑ گیا۔

صفائی کا نظام ایسا کہ جہاں مدتوں صفائی کی ضرورت ہی نہیں پینے کا صاف پانی کبھی میسر نہیں آتا باتھ روم کا تصور انتہائی ہولناک ووحشت ناک ہے۔ سرکاری اسکولوں کے چوکیدار اور چپڑاسی اسکول کے ٹیچرز اور ہیڈ ماسٹر صاحب سے زیادہ بااختیار اور طاقتور ہیں ۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں پر سرے سے توجہ ہی نہیں ہے لیکن نجی تعلیمی اداروں کے لئے تو رجسٹریشن سے پہلے کے جو قوانین ہیں ان کا اطلاق ہی ممکن نہیں ڈائریکٹر اسکول اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر دیکھائی دیتے ہیں اور نجی اسکولوں کے لئے انسپیکشن ٹیم کا کوئی وجود نہیں جب چیک اینڈ بیلنس ہی نہیں تو نجی اسکول کھل کر والدین کو لوٹیں گے اور یہی سب کچھ ہورہاہے۔

کراچی کے تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر موجود ہوتے ہیں لیکن کیا مجال جو ڈسٹرکٹ کے کسی اسکول کا دورہ کرلیں اور وہاں موجود ہ پریشانیاں اور مشکلات اپنی آنکھوں سے دیکھیں لیکن انہیں اپنی تنخواہوں اور اوپر کی آمدنی سے تو دلچسپی کچھ ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے لیکن قوم کے بچوں کا بہتر مستقبل کسی صورت برداشت نہیں۔ جب ہم تعلیم کی بات کرتے ہیں تو وہاں بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ صوبہ سندھ کے طلبہ وطالبات عالمی سطح تو دور کی بات وہ ملکی سطح کے بھی برابر نہیں آسکے یعنی دیگر صوبوں کا نظام اور نصاب صوبہ سندھ کے نظام سے لاکھ درجے بہتر پایا جاتا ہے۔

سندھ کے تعلیمی معاملات کہاں دیکھے جاتے ہیں اور کون لوگ دیکھتے ہیں اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ بیمار دماغوں کاگروہ ہے جو صوبہ سندھ سے تعلیم کو اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے اور غلامی کی فضا کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھنا چاہتا ہے۔اس برس کے میٹرک کے سالانہ امتحانات میں انتظامیہ کی موجودگی میں کھلے عام نقل ہوتی رہی موبائل فون کا آزادانہ استعمال ہوتا رہا اور انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لوٹتی رہی کچھ طلبہ نقل کرتے پکرے گئے تو کچھ کسی اور کی جگہ پرچہ حل کرتے رنگے ہاتھوں گرفت میں آئے کئی اسکول ہیڈ ماسٹر وقتی طور پر معطل ہوئے لیکن کسی بھی اسکول میں نقل اور موبائل کے استعمال کی روک تھام کے لئے کچھ نہیں ہوسکااور نہ کچھ کیا جاسکا جبکہ سالانہ امتحانات کے آغاز سے پہلے ہی ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے اطلاع دے دی گئی تھی کہ امتحانات کے دوران کیا صورتحال رکھی جائے گی مگر انتظامیہ کے تمام تر دعوے صرف کاغذ کا ایک معمولی پرزہ ثابت ہوئے۔

کراچی کے تمام امتحانی مراکز میں ایسی ایسی کھلی بد نظمی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا جس کی مثال نہیں ملتی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ امتحانات نہیں بلکہ انجوائیمنٹ کا کوئی نیا طریقہ کار اپنایا جارہاہو۔نقل مافیا باہر سے تمام انتظامات دیکھ رہی تھی یہ بات اسکول کے استاتذہ کے علم میں بھی تھی حل شدہ پرچہ طلبہ کو منٹوں سیکنڈوں میں کلاس روم میں لگ بھگ ایک ہزار روپے یا اس سے کچھ زیادہ میں باآسانی دستیاب تھا ۔

اس سے پہلے سندھ کے کئی شہروں میں پرچہ ایک دن پہلے یعنی گذشتہ شب ہی طلبہ کے ہاتھ میں موجود تھا ۔اس سلسلہ میں انتظامیہ کیا جواز پیش کرسکتی ہے ؟کیا اداروں کے اندر ہی ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اس بھیانک جرائم کی مرتکب ہورہی ہیں ؟اور کون ان کی سرپرستی کررہا ہے ؟ یہاں متعدد سوالات جنم لیتے ہیں سب سے پہلے تعلیم کا بیڑا غرق اسکے بعدنقل مافیا کو فری ہینڈ دے کر طلبہ کی بربادی کا سامان کیا گیا ۔

اسکول انتظامیہ بالکل بے بس نظر آتی تھی نقل مافیا کااثرورسوخ زیادہ تھا جس میں پچاس فیصد جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا گیا لیکن ایسے طلبہ کی تعداد بھی کم نہ تھی جو صرف چھپائی کے لئے حل شدہ پرچہ یا حل شدہ گائیڈ استعمال کررہے تھے اور اسکول انتظامیہ انکی نگرانی کے فرائض ادا کرنے میں انتہائی چست دیکھائی دے رہے تھی۔
حیرت انگیز بات یہ دیکھی گئی کہ طلبہ کے ذہن کے کسی بھی گوشے میں یہ بات نہ تھی کہ یہ سالانہ امتحانات ہورہے ہیں جس سے انکے مستقبل کا تعین ممکن ہوسکے گا۔

سندھ حکومت نے اب تک ان 12برسوں میں کوئی تعلیمی پالیسی مرتب نہیں کی اور اگر کی بھی تو وہ ناقابلِ عمل نکلی اور بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی جس سے صوبہ سندھ کے طلبہ وطالبات بہرہ مند نہ ہوسکے ۔تعلیمی معاملات کی تباہی میں اداروں کی نااہلی غیر سنجیدہ اور سفارشی عملہ ملوث پایا جاتا ہے اس عملے کے یا ان اہلکاروں کے تعلقات علاقائی ٹیوشن سینٹرز سے ہوتے ہیں جن کے ذریعے یہ پرچے آؤٹ کراتے ہیں اور طلبہ سے بھاری رقمومات بطور نذرانہ وصول کرتے ہیں سندھ حکومت یا بلدیاتی حکومت اب تک ان گلی محلوں میں بے جا پھیلے ہوئے ٹیوشن سینٹرز کو قابو میں نہ کرسکی اور نہ ہی ان کے لئے کوئی قانون مرتب کرسکی اور اب تو یہ حالت ہے کہ طلبہ پڑھنے کے بجائے ان ٹیوشن سینٹرز پر بھروسہ کر بیٹھتے ہیں اور ہر ماہ فیس کی مد میں بھاری رقم ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ساہلاسال اسکول جانے یا پڑھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور طلبہ انہی پر اکتفا کئے رہتے ہیں یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ ایک ٹیوشن سینٹرکے مالک نے امتحانات کے دوران طلبہ کے سامنے اعلان کیا کہ آپ پرچہ حل کریں یا نہ کریں لیکن اپنی کاپی کا نمبر ضرور نوٹ کرلیں بے شک اس میں کچھ بھی تحریر نہ ہو بس آپ امتحانی کاپی کا نمبر نوٹ کرلیں اور وہ لاکر ہمیں دیں پاس کرانا ہماری ذمہ داری ہے جس کی فیس بھی الگ سے ہوتی ہے۔

 
جب پورے صوبے میں تعلیم فروشی عروج پر ہو تو تربیت کہاں سے ہوگی ؟شعور کیسے بیدار ہوگا؟نوجوان ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں جب نوجوانوں کی بنیاد ہی درست نہیں ہوگی تو ملک کی ترقی ممکن ہی نہیں بیروزگاری میں الگ اضافہ ہوگا۔جبکہ ٹیکنیکل تعلیم کے سلسلہ میں بھی بدنظمی دیکھنے میں آتی ہے جہاں ایسے ہنر مند طلبہ کو بنیاد سے ہی ہنر کی تعلیم دی جاتی ہے ۔

حکومتِ سندھ کو ہر صورت میں سنجیدگی اختیار کرنی ہوگی اب تک کی نااہلی نے سندھ کے طلبہ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے تعلیم کی دوڑ میں صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے طلبہ وطالبات پیچھے ضرور رہ گئے ہیں مگر اپنی خدادادذاتی قابلیت کی بنا پر سہولیات نہ ہونے کے باوجود اپنامعیار قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئے لیکن افسوس حکومت سندھ ان نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے نوجوانوں کے لئے کوئی پلیٹ فارم بنانے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے نوجوان طبقہ سخت مایوسی کی حالت میں ملک چھوڑنے کے لئے تیار ہے 
۔

دوسرا فورم بچتا ہے نجی تعلیم لیکن نجی تعلیمی اداروں کی من مانیاں اتنے عروج پر ہیں کہ حکومت ِ سندھ کو بھی انکے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔فیس کی مد میں بھاری رقم کی وصولی ،کاپیاں کتابیں ہر صورت میں اسکول مالکان سے بڑی رقم کے عویض خریدنے پر مجبور والدین اسکے علاوہ دیگر اخراجات کی مد میں کبھی بھی اسکول مالکان والدین کی جیب خالی کرنے کے حقوق محفوظ رکھتے ہیں لیکن جب تعلیم کی بات آتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ تعلیم وتربیت کے نام پر کھلا دھوکا دیا گیا ہے نصاب کے نام پر بھرپور مذاق کیا گیا۔

سندھ حکومت اب تک اندھیرے میں ہی بیٹھی ہے اور دوسری جانب بے بس قوم بنیادی اچھی تعلیم سے بھی محروم نظر آتی ہے جب کراچی جیسے شہر میں تعلیم کا یہ حشر نشر کردیا گیا ہے تو سندھ کے دیگر شہروں کا کیا حال ہوگا جبکہ کراچی تعلیم میں پورے ملک میں سب سے آگے تھا ایک تعلیم یافتہ لوگوں سے بھرپور شہر۔
سندھ کے وزیرتعلیم بھی کوششوں میں ہیں کہ شاید اس صوبے کا نظامِ تعلیم درست کرسکیں لیکن ایسا ممکن ہوتاہوا دیکھائی نہیں دیتاکیونکہ سابقہ وزرا ء تعلیم نے جو کارنامے سرانجام دئیے ہیں انہیں اتنی جلدی ٹھیک کرنا ممکن ہی نہیں اور رہی کرپشن کی بات تو اسکا خاتمہ بھی ممکن نہیں اور موجودہ وزیرِ تعلیم اگر صوبے کی قوم کے لئے 30فیصد ہی نظام درست کردیں تو یہ بہت بڑا کارنامہ تصور کیا جائے گا جس کی امید بھی کم ہے۔

نظام تعلیم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انتہائی ضروری ہے کہ کرپٹ عناصرکی بیخ کنی کی جائے اور ہر ہر قدم پر حوصلہ شکنی کی جائے اسی طرح کچھ صورتحال واضع ہوسکتی ہے ۔
سرکاری اسکولوں کی بدحالی نے نجی تعلیم فروشی کو بے انتہاء پنپنے کا کھلا موقع فراہم کیا اور نجی تعلیم فروشوں نے اس کمی سے بھرپور فوائد حاصل کئے جو کہ وزیرِ تعلیم کی نااہلی ثابت کرگئے ۔

نجی تعلیم فروشوں کے لئے قوانین موجود ہیں لیکن افسوس یہ تعلیم فروشی توکھل کر کرتے ہیں لیکن قوانین پر عمل نہیں کرتے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں قوانین سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی قوانین بنانے والوں کو اس بات سے کوئی دلچسپی ہے کہ نجی تعلیم فروش کس طرح قانون شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں۔نجی تعلیمی اداروں کی عمارت دیکھ کرہی بات بالکل واضع ہوجاتی ہے کہ رشوت کا بازار گرم ہے اور یہ لوگ جس طرح چاہیں کھل کر قوانین کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں کیونکہ سرکاری اداروں کی جانب سے کسی قسم کی تحقیقات نہیں کی جاتی جبکہ کہ نجی تعلیمی اداروں کے لئے سندھ حکومت کی جانب سے بہترین آرڈنینس بنائے گئے ہیں لیکن انکا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ہونے دیا جاتا ہے بس کچھ جیبیں خالی ہوتی ہیں تو کچھ جیبیں بھر جاتی ہیں اس طرح تعلیم کے نام پر کھل کر کمائی ہوتی ہے اور والدین مجبور ولاچار بن کر بلیک میل ہوتے رہتے ہیں۔

اگر سرکاری تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے سخت ترین اقدامات اٹھائے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس قوم کوایک بنیادی سہولت میسر آجائے لیکن احتساب اور سخت فیصلے کرنے ہونگے سیاست اورا قرباپروری جانبداری سفارش پرچی وغیرہ کا خاتمہ کرکے میرٹ اور صلاحیت کو فروغ دینا ہوگا کیونکہ یہ پوری قوم کا معاملاہے جس پر ہمارے مستقبل کا دارومدار ہے۔
وزارتِ تعلیم کو بہت زیادہ سمجھداری کامظاہرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ایسے لوگوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے جو ان تمام مسائل کو سمجھتے ہوں تعلیمی معاملات میں کسی بھی قسم کی کوتاہی یا سستی پر عدم برداشت کا ہی مظاہرہ ہونا چاہئے ایسے تمام عناصر کا کھلا احتساب ہونا چاہئے تو تعلیمی اداروں کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

آج ایسے لوگ ہم پر حکمراں بن کر بیٹھے ہیں جو اپنے ملک کے تعلیمی نظام اور اداروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دوسرے ملکوں سے جاکر تعلیم حاصل کرکے پاکستانی عوام پر حکمرانی کرتے ہیں لیکن نظامِ تعلیم کی خرابیاں دور کرنے سے قاصر ہیں یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستان کے تعلیم یافتہ لوگ اپنے ہی ملک میں تباہ ہورہے ہیں جبکہ تعلیمی معاملات میں سیاسی مداخلت بھی پائی جاتی ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sindh ka taleemi nizam is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 September 2019 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.