
یہ ہے پاکستانی جمہوریت
امیروں کی حکومت امیروں کیلئے۔۔۔ہمارے ہاں قومی خزانے میں رقم جمع ہونے کو ہی ترقی سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قومی خزانہ بھرا ہوتو ملک تیزی سے ترقی کرتا ہے
سید بدر سعید
ہفتہ 31 مئی 2014

پاکستان اس وقت تاریخ کے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک ہے لیکن درحقیقت صورتحال اتنی اچھی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اعدادو شمار اور گراف میں ترقی دکھائی جاتی ہے لیکن اعدادو شمار کے اس گورکھ دھندے سے باہر نکل کر زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
(جاری ہے)
۔ مہنگائی کی شرح جس رفتار سے بڑھ رہی ہے ، بیروزگاری کی شرح میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہورہا ہے۔
روز مرہ استعمال کی اشیا بشمول غذائی اجناس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس نے غریب آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ہمارے ہاں قومی خزانے میں رقم جمع ہونے کو ہی ترقی سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قومی خزانہ بھرا ہوتو ملک تیزی سے ترقی کرتا ہے کیونکہ خزانے میں موجود رقم سے عوام کی فلاح و بہبود کے منوبے شروع کئے جاتے ہیں اور قوم کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ جب عوام کو سہولتیں ملتی ہیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں تو ملک ترقی کی منزلیں طے کرنے لگتا ہے۔ یہی ترقی یافتہ اقوام کا چلن ہے اور اسے ہی جمہوریت کا حسن کہا جاتاہے ۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کی آمریت چلتی ہے۔ اس طرح کے جمہوری نظام میں نہ تو ترقی ممکن ہوتی ہے ، نہ ہی عوام آدمی کو ریلیف ملتا ہے۔ انتخابی عمل اس قدر مشکل بنادیا گیا ہے کہ غریب آدمی کا منتخب ہونا ممکن ہی نہیں رہتا۔ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اگر منتخب ہوبھی جائے تو اسے اہم وزارت نہیں دی جاتی۔ وزارت اعلیٰ یا وزارت عظمیٰ تو اس کیلئے محض خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔وطن عزیز کے تمام جمہوری اداروں کا جائزہ لے لیں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر بھی محض بااثر اور صاحب ثروت طبقہ ہی حکومت کرتا رہا ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ جمہوریت کے لبادے میں حکمرانی کا حق بھی کاندانی بادشاہت کی طرح نسل درنسل آگے منتقل ہورہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کیلئے خون پسینہ بہانے والے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ انکی عمر بھر کی قربانیاں اس وقت بے ثمر ہوجائیں گی جب مقابلے پر پارٹی سربراہ کا بیٹا یا بیٹی آجائے گی۔ سیاسی جماعتوں کی سربراہی ہی نہیں بلکہ اہم وزارت اور مستقبل میں پارٹی سربراہ کو ملنے والے سیاسی و حکومتی عہدے پر بھی اس کے بچوں کا حق سمجھاجاتا ہے۔
جائزہ لیں تو موجودہ نظام میں چند خاندانوں کی ہی حکمرانی چل رہی ہے۔ جمہوریت کا فائدہ یا نقصان انہی کو ہوتا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی ہونے یا نہ ہونے کا اثر بھی انہی پر پڑتا ہے۔ ڈالر کی قیمت کم یا زیادہ ہونے سے بھی انہی کو نفع نقصان ہوتا ہے۔ جدید سہولیات سے یہی طبقہ استفادہ کرتا ہے۔ بادشاہت سے لے کر کاروباری اتار چڑھاؤ کا اثر بھی صرف انہی پر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں دکھائے جانے والے ٹاک شوزمیں جن امور پر بحث ہوتی ہے وہ بھی عام آدمی کے مسائل نہیں۔ اس کا تعلق بھی اسی خاص طبقے سے ہوتا ہے البتہ اسے پیش کرنے کا اندازہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے یہ عوام آدمی کے مسائل ہیں۔ نظام حکومت، عالمی منڈی، اسٹاک ایکسچینج ، ڈالر کے اتار چڑھاؤ سمیت تعلیم اور صحت جیسے کئی معاملات میں ایک مخصوص طبقہ کی اجارہ داری نظر آتی ہے۔ عام آدمی کے حالات ایسے ہیں کہ گوشت قوت خرید سے باہر ہوچکا ہے۔ سبزیوں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کررہی ہیں، دالیں خریدنا عیاشی کے زمرے میں آتا ہے، آٹے سے لے کر گھی اور چینی تک ہر چیز میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ نت نئے ٹیکسوں میں اضافہ عروج پر ہے۔ یہاں تک کہ مساجد کی انتظامیہ بجلی کے بل میں شامل ٹی وی لائسنس کی فیس تک ادا کرتی ہیں۔ دوسری جانب حکومت کو ترقی ہوتی اس لیے نظر نہیں آرہی ہے کہ مختلف مدوں میں ٹکس بڑھادیے جاتے ہیں۔ جن سے یقیناََ قومی خزانے میں اضافہ ہوتا ہے لیکن عوام کا خون چوس کر حد سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کا یہ عمل ایس رخ اختیار کر چکا ہے کہ غریب اپنا چولہا بند کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ خودکشیوں اور طاقتوں کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چند افرادکے ہاتھوں میں کھیلنے والی اس نام نہاد جمہوریت کو اس کا اصل حق دیا جائے اور حکومت مہنگائی کی شرح میں اضافہ کم کرتے ہوئے عا م شہری کو بھی جینے کا حق دے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک امیر تو امیر تر ہوتا چلا جائے اور غیر فاقوں پر مجبور ہوتے جائیں۔ ایسا نظام زیادہ دیر تک چلے تو انتقام اور بغاوت کو جنم دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس انتشار کو بڑھنے سے روکا جائے اور عام آدمی کے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دی جائے تاکہ معاشرے میں خوشحالی اور امن قائم ہوسکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
ایک ہے بلا
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
مزید عنوان
Yeh Hai Pakistani Jamhoriat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 May 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.