یوم تکبیر ۔۔۔اللہ کا احسان ‘ ایٹمی پاکستان

واجپائی کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستان پانچ کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکے کر ڈالے گا پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے امت مسلمہ کا سر فخر سے بلند کر دیا

پیر 28 مئی 2018

yom tkbir Allah ka ahsaan  atomi Pakistan
ابوالہاشم ربانی
بلوچستان کے شمال مغرب میں صحرائے خاران ، اس کے پس منظر میں اونچے اونچے چنیل پہاڑ جو28 مئی 1998 کی سہ پہر تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے اپنے ازلی دشمن انڈیا کا غرور خاک آلود کر دیا، جب تین کروڑ خداوٴں کے پجاریوں کے ناپاک عزائم کو چاغی کے پہاڑوں سے اُٹھنے والی ایٹمی گرد میں دفن کر دیا گیا۔

جب دنیا بھر کی پیش کشوں کو صحرائے خاران میں دفن کر دیا گیا۔ پوری دنیا ورطہ حیرت میں بھی یہ کیا ہو گیا۔ جی ہاں یہ وہی ہو گیا جس کی امید انڈیا کوکبھی بھی نہ تھی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ ویسے تو ہندوستان دنیا میں ایک گھٹیا ترین ہمسایہ ہے مگر پاکستان کے ساتھ ازل سے جاری اس کا جار ہانہ رویہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب طاقت کے نشے میں چور واجپائی حکومت نے گیارہ مئی 1998 کوپوکھر ان کے مقام پر زیرزمین تین ایٹم بم کے تجربے کر ڈالے جس کے بعد اس نے پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں ،دودن کے وقفے کے بعد مزید دو دھماکے کر دیے۔

(جاری ہے)

اس تمام تر صورتحال کے بعد تو انڈیا علی الاعلان پاکستان کو دھمکیاں دینے لگا جس کا جواب دینا ناگزیرتھا انڈیا یہ سمجھ رہا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی بہت دور ہے۔ واجپائی سرکار کے شاید وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پانچ کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکوں کی صورت میں ان کی عقل ٹھکانے لگا دی جائے گی۔ انڈیا کو اس قدر کرارا جواب د ے کر پاکستان نے دنیا میں چھٹی جبکہ اسلامی ممالک میں پہلی اور اب تک کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کر لیا تھا۔

یوں تو بھارت اسے قیام سے ہی جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کے خواب دیکھتا چلا آرہا ہے۔ تعداد کے اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحر یہ رکھنے والا ملک 1974 میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا۔ مجبورا َپاکستان کو بھی اپنے دفاع کے لئے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔ پاکستان کی جانب سے ایٹمی قوت کا حصول اس لیے بھی ضروری تھا کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باعث بھارت کے ساتھ عددی اعتبار سے روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔

مزید یہ بھی کہ بھارت ایٹمی قوت بننے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کر کے اس کو دولخت کر چکا تھا۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطہ میں طاقت کا توازن کو بری طرح بگڑ ہی گیا۔ اس لئے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستان کونہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔ وطن عزیز کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے انہوں نے دنیاکوواضح اور دوٹوک،واشگاف الفاٹا میں بتلا دیا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔

یہ عمل اس لیے بھی ضروری تھا کہ وطن عزیز پاکستان کی عزت، غیرت اور سالمیت کا سوال تھا۔ اٹل بہاری واجپائی نے اپنی انتخابی مہم میں برملا اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد اکھنڈ بھارت بنانے کے لئے ہر حر بہ اختیار کرینگے چاہے اس کے لیے ایٹم بم گرانے پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔صدفی صد ایسا ہی ہوا واجپائی نے برسراقتدار آنے کے بعد اپنے جارحانہ عزائم کا بھر پور طریقے سے اظہار کیا اور ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ بھارت اپنے جارحانہ عزائم کوکسی بھی وقت عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔

دہلی سرکار نے لائن آف کنٹرول پر اپنی فوجوں کو آزادکشمیر میں داخل ہو کر مجاہدین کشمیر کے کیمپوں پر حملے کا ٹاسک بھی دے دیا۔اٹل بہاری واجپائی کی یہ جارحیت پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ پوری قوم کی یہ تمنا تھی کہ بھارتی جارحیت کا بھر پور طریقے سے جواب دیا جائے۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں جن پر اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو انڈیا پاکستان کو کھا چکا ہوتا۔

آج سری لنکا ہو یا بنگلہ دیش، نیپال ہو یا بھوٹان حتی کہ مالدیپ ان سب کو بھارت نے ایٹمی قوت بن کر اپنی طفیلی ریاستیں بنا رکھا ہے۔ یہ ملک اپنی مرضی سے دنیا میں خاص طور پر پاکستان سے اپنے روابط استوار نہیں کر سکتے۔
اپنی آزادی اور اپنے نظریات کا تحفظ صرف وہی قوم کر سکتی ہے جو دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتی ہے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ قوموں کی تاریخ بے بسی کے آنسووٴں سے نہیں لکھی جاتی۔

ملکوں اور قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب ایک صحیح فیصلہ ان کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ایسا ہی وقت پاکستان کی تاریخ میں بھی 28مئی1998ء کو آیا جب ایک صحیح اور بروقت فیصلہ نے ایک ایسا معجزہ کر دکھایا کہ دنیا حیران و ششدر رہ گئی۔ دنیا کو یہ بتلانا بھی ضروری ہو گیا تھا اگر اُس وقت یہ فیصلہ نہ کیا جاتا تو ہماری آنے والی نسلیں غیر محفوظ ہوتیں اور ہم احساس کمتری کا شکار ہو جاتے۔

اس فیصلے سے حکم الہیٰ پر بھی عمل درآمد ہو گیا جس کا ذکر سورة انفال میں اللہ رب العزت ان الفاظ میں کرتا ہے” اور جہاں تک ممکن ہو کافروں کے مقابلہ کے لیے قوت اور جنگی گھوڑے تیار کھو جن سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے دشمنوں کو خائف کرسکو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ ا نہیں جانتا ہے“ حکم الہٰی پرعمل کرنے کی برکت ہے کہ مئی 1998ء میں پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد تمام مسلم اُمہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

دشمنوں کا بغض بھی تھا اور یاروں کی خوشی بھی جس نے اس ایٹمی قوت کو صرف پاکستان تک محدود نہ رکھا بلکہ یہ اسلامی ایٹم بم کہلایا۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ انڈونیشیا سے لے کر شمالی افریقہ کے مسلم ممالک میں چراغاں کیا گیا ۔فلسطینیوں نے کہا کہ اب ہم یہودیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں۔ پوری مسلم اُمہ میں پاکستان کے ایٹم بم کو اپنا ایٹم بم کہا۔

یوں اس دن کویوم تکبیر“ سے موسوم کیا گیا۔ تیسری دنیا کا ملک پاکستان جہاں نہ کوئی تعلیم عام تھی اور نہ ہی ٹیکنا لو جی میسرتھی ، وہ ایٹمی قوت بننے میں کامیاب ہوگئی۔ پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کا سر فخر سے بلند کر دیا اور دفاع وطن کو بیرونی جارحیت سے مکمل محفوظ بنا دیا۔ ناقدین عرصے سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ تیسری دنیا کا ملک پاکستان جو آج بجلی کے بدترین بحران سے دوچار ہے اور جہاں ہر طرف کر پشن ہی کر پشن ہے اور جہاں صحت وتعلیم کی سہولیات غریب کے لئے ناپیدہیں اسے نیوکلیئر پروگرام میں قومی وسائل صرف کرنا دانشمندی نہ تھی۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ جب سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایٹمی توازن قائم ہوا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان ایٹمی بموں کی تعداد اور کوالٹی میں بھارت پر برتری اور پاکستان کے میزائلوں کے سو فیصد ہدف کو تباہ کرنے کی صلا حیت نے بھارت کے مقابلے میں وطن عزیز کو محفوظ بنا دیا ہے اور اس حد تک محفوظ بنا دیا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، اس کے کسی کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں ہیں۔ پھر بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اسے بار بار ہندوستان سے جنگیں لڑ نا پڑیں۔ پاکستان اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے اور انہیں خوراک تعلیم اور علاج معا لجے سمیت زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر صرف کرنے کا شدت سے آرزو مند ہے۔

مگر دشمنوں کی جانب سے مسلط کردہ دہشتگردی اور بیرونی جارحیت کے خطرات کی موجودگی میں اپنے دفاع سے بھی غافل نہیں رہا جا سکتا۔ مختلف اسباب کی بناء پر اس کی سلامتی کے لئے خطرات آج بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضانے کی جدو جہد کر رہا ہے۔
اگر 28 مئی کے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اگر مخت، لگن اور ایمانداری سے کام لیا جائے تو نا ممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں جس طرح اٹامک انرجی کمیشن ، نیسکا م ، آرایل کے ادارے بھی کام کررہے ہیں اگر اسی طرح ملک کے دوسرے ادارے بھی کام کریں تو ہم قلیل عرصہ میں ملک پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنا سکتے ہیں۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور مسلمانوں کی حفاظت کا ضامن بھی ہے۔ جس طرح مئی 1998 میں پاکستان نے جرات کا مظاہرہ کیا تھا اور عالمی دباوٴ کو خاطر میں نہیں لایا گیا تھا آج بھی اسی امر کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو اپنے دفاع اور امت مسلمہ کی ترجمانی کے لیے مزید مضبوط فیصلے کرنا ہوں گے۔ ایٹمی صلاحیت کا حامل پاکستان اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے جو دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لئے امیدوں کا مرکز ہے۔کشمیر کو ہندوبننے سے آزادی کیلئے اپنا بھر پور قردار ہر سطح پر ادا کرنا ہو گا۔ کیونکہ کلمے والا ایٹمی پاکستان آج بھی کشمیریوں کی امیدوں کا مرکز محور ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ان تم آج کشمیریوں نے آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں پاکستانی پرچم لہرانا، پاکستان زندہ باد اور انڈیا مردہ بادکے نعرے لگانا اپنا معمول بنا لیا ہے۔ سنگ باز کشمیریوں کو اس بات کی یقین دہانی کروانے کی ضرورت ہے کہ پوری پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے۔ 28 مئی 1998 کو ہونے والے ایٹمی دھماکے در اصل امریکہ اور اس کے حواریوں کی غلامی کی نجات کا دن تھا اور اب پاکستان مستحکم، مضبوط ملک ہے۔ یوم تکبیر دشمنان اسلام اور پاکستان کے لیے یوم تکلیف کے مترادف ہے۔ پاکستان زندہ باد ایٹمی پاکستان پائندہ باد۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

yom tkbir Allah ka ahsaan atomi Pakistan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 May 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.