ہم نیک لوگ۔۔!

جمعرات 2 جولائی 2020

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

مجھے میرا قصور بتا دیں سر بس اور کچھ نہیں کہتی میں مجھے اس دنیا میں کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔
وہ میرے سامنے بیٹھی رو رہی تھی اسکی عمر قریباً ستائیس اٹھائیس لگ رہی تھی وہ قبول صورت بھی تھی اور تعلیم بھی گریجویشن تک حاصل کی تھی لیکن ایک بات تھی جس سے وہ تنگ آکر میرے سامنے رونے پر مجبور تھی، یہ جاننے کے لئے ہمیں 2012  میں جانا پڑے گا۔

۔۔
عائشہ (ایک فرضی نام) بہاولپور کی ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہے اسکا باپ بچپن میں ایک حادثہ میں وفات پا جاتا ہے وہ دو بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے بڑی ہے سب گھر والے جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں دادا دادی کی خواہش پر عائشہ کی شادی 18 سال کی عمر میں اپنے ماموں کے گھر کزن کے ساتھ ہو جاتی ہے اسکا کزن اس سے شادی کر کے خوش نہیں ہوتا بس ماں باپ کے کہنے پر دونوں کی ایک مجبوری کا رشتہ نبھانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، روز دونوں میں لڑائی ہوتی ہے عائشہ ہفتے میں 5 دن اپنی ماں کے گھر رہتی ہے اور 2 دن اپنے سسرال یہ سلسلہ اسی طرح چلتا ہے دو سال بعد اسکا شوہر بیرون ملک چلا جاتا ہے عائشہ پاکستان میں کبھی اپنی ماں اور کبھی سسرال میں رہتی ہے جہاں پر دونوں اطراف سے اسکے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے، پانچ سال تک اسکا شوہر واپس نہیں آتا نا کوئی رابطہ کرتا ہے اور نا ہی کوئی خیر خیریت پوچھتا ہے، عائشہ کی شادی کے ٹھیک 8 سال بعد جنوری 2020 کو عائشہ کو طلاق کے کاغذات مل جاتے ہیں اور وہ اپنی ماں کے گھر آجاتی ہے جہاں پر اسکا بڑا بھائی اسکی عدت کے سولہویں روز اسے بازو سے پکڑ کر گھر سے باہر نکال دیتا ہے صرف یہ کہ کر کہ میں تمہارا خرچ نہیں اٹھا سکتا خود کماؤ اور کھاؤ،
عائشہ کی عدت اسی دن ختم ہو گئی تھی وہ باہر نکلی نوکری کی تلاش شروع کی ایک پرائیویٹ سکول میں ملازمت ملی، واپس اپنی ماں اور بھائی کے پاس گئی ان سے کہا میں اپنا خرچ خود اٹھانے لگی ہوں بس مجھے گھر میں رہنے کی اجازت دے دیں، ماں چپ رہی بھائی نے فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ٹھیک ہے گھر رہو لیکن جو تنخواہ ملے وہ لاکر ہمیں دینا،
یہاں تک بھی ٹھیک تھا لیکن پھر ماہ رمضان کے بعد ماں اور بھائی نے عائشہ کے لئے دوسرا رشتہ ڈھونڈنے کی کوشش کرنی شروع کر دی اور انکی یہ تلاش جلد ختم ہوئی اور انکو ایک رشتہ مل گیا لیکن ایک مسلئہ تھا وہ لڑکا پیدائشی ڈس ایبل تھا وہ دیکھنے کی حس سے محروم تھا وہ نابینا تھا، عائشہ کی ماں اور بھائی وہ رشتہ پکا کر آئے، گھر آکر عائشہ کو اس رشتے کے بارے میں بتایا تو عائشہ پر قیامت ٹوٹ پڑی،
اس وقت عائشہ میرے سامنے بیٹھی تھی اور مجھ سے صرف ایک سوال کر رہی تھی کہ سر "میرا قصور کیا ہے" میرے پاس میری اس بہن بیٹی کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا
کمرے میں پھیلی اداسی خاموشی اور گھٹن مجھ سے برداشت نہیں ہورہی تھی میں نے کمرے کی کھڑکی کھولی باہر سے گرم ہوا کمرے میں داخل ہوئی میں نے ایک ایک نظر پاکستان کی آبادی اور پھر بہاولپور کی آبادی کے گراف پر اور پھر پاکستان میں غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد پر ڈالی اور سر کو جھکا لیا،
یونیسیف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں جن کی عمریں بیس سے پینتیس سال تک کی ہیں شادیوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں سے دس لاکھ کے قریب لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے۔ تنہا رہنے والی بیوائیں جن کی عمریں 30 سے 45 سال کی ہیں تقریباً 60 لاکھ تک کی تعداد میں موجود ہیں اور جو کم عمری کی ناکام شادی اور پھر طلاق جیسی اذیت لے کر گھر بیٹھی ہیں وہ الگ ہیں، اس وقت پاکستان کم عمری میں بچیوں کی شادی کرنے والا دنیا کا چھٹا ملک ہے، جس میں زیادہ تر شادیاں ناکام ہوتی ہیں غلطی ماں باپ اور بڑوں کی ہوتی ہے لیکن تکلیف اذیت سے اولاد کو گزرنا پڑتا ہے، آپ اس وقت پاکستان کے کسی بھی شہر کسی بھی گاؤں میں چلے جائیں آپ کو سو میں سے تیس فیصد ایسی عائشہ ملیں گی جو اس اذیت سے گزر رہی ہیں لیکن گھر والے اور ہمارا معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا کیوں کیونکہ ہم لوگ پوری دنیا میں سے زیادہ حج کرنے والے لوگ ہیں، پوری دنیا کے اسلام کے بہترین مبلغ ہم میں پیدا ہوتے ہیں، پوری دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والا غرباء اور مساکین کا خیال رکھنے والا ملک بھی پاکستان ہے، پوری دنیا میں اسلام کے نام پر بننے والی دوسری ریاست بھی پاکستان ہے، اور اب ہمارے وزیراعظم صاحب نے پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کا بھی دعوہ کیا ہے، ہم لوگ نیک بھی بہت ہیں لیکن حقوق العباد میں آکر ہم ظالم بن جاتے ہیں  ہم خود قصوروار ہیں اس سارے معاشرے میں ہم خود غلط ہیں اپنے بچوں پر ظلم کر کے انہیں باغی بناتے ہیں انکی کم عمری میں بغیر پوچھے شادی کر کے ہم خود ظلم کرتے ہیں،
 اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن کے علاقے کراچی کمپنی کی رہائشی ایک تیس سالہ خاتون شاہدہ پروین نے ایک جگہ بتایا کہ ان کے سات بچے ہیں۔

وہ صرف تیرہ سال کی تھیں، تو ان کی شادی 'وٹے سٹے‘ کے تحت ایک بتیس سالہ مرد سے کر دی گئی۔ انہوں نے کہا، ’’ہم آٹھ بہن بھائی تھے، گھر میں غربت تھی اور گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا۔ اس لیے گھر والوں نے بھی بچپن ہی میں میری شادی کر کے اپنی جان چھڑائی اور کبھی پلٹ کر پوچھا بھی نہیں۔ اب میں مختلف لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہوں۔‘‘
شاہدہ پروین نے مزید کہا، ''کم عمری کی شادی بہت بڑا عذاب ہے۔

میرا شوہر چار سال تک بیمار رہنے کے بعد عرصہ ہوا انتقال کر چکا ہے۔ میرا ایک بچہ معذور پیدا ہوا تھا۔ وہ بستر سے اٹھ بھی نہیں سکتا۔ میں سوچتی ہوں کاش میری شادی بچپن میں ہی نہ ہوئی ہوتی۔ ایسا نہ ہوتا تو آج میں بھی پڑھی لکھی اور خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہوتی۔‘‘
اب آپ خود دیکھیں عائشہ کو میں خود جانتا ہوں اور شاہدہ پروین کا بیان ایک اخبار میں پڑھا تھا یہ مسلئہ آپکو ہر دوسرے گھر میں ملے گا لیکن ہم لوگ اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا تو دور کی بات اس موضوع پر بات کرنا یا لکھنا بھی گوارا نہیں کرتے کیونکہ یہ ابھی ہمارے گھر کا مسلئہ نہیں ہے، جنابِ عالی یہ مسلئہ ایک عورت کا ہے ایک انسان کا ہے ہمارے معاشرے کا ہے ہم نے خود اس مسلئہ کو حل کرنا ہے،
میں زیادہ دور نہیں جاتا ہم صرف اپنی بات کرتے ہیں کیا بہاولپور کی  844600 آبادی میں سے کوئی ایک گھر کوئی ایک مسلمان گھرانہ کوئی ایک اسلام کو مکمل ماننے والا گھرانہ کوئی ایک ایسا شخص جس کے نزدیک حقوق العباد اہمیت سے واقف ہوں وہ عائشہ کے سر پر ہاتھ رکھے گا۔

۔۔؟
اگر آج ہم کسی ایسے مسلئے پر ایک نہیں ہوں گے کسی ایسے مسلئے پر آواز نہیں اٹھائیں گے تو یاد رکھیں یہ مسائل بڑھتے جائیں گے ہماری بیٹیاں اس چکی میں پستی رہیں گی اور روز محشر ہم سب جواب دہ ہوں گے، اور پھر نا ہماری نمازیں کام آئیں گی نا روزے نا حج نا خیرات کچھ بھی کام نہیں آئے گا اگر حقوق العباد پورے نہیں کئے ہوں گے، خدارا اپنے اردگرد نظر دوڑائیں آپکو ہزاروں عائشہ نظر آئیں گی کچھ عائشہ اپنی آواز ہم تک پہنچا دیتی ہیں اور کچھ عائشہ خاموشی سے ظلم سہتی رہتی ہیں اور ایک دن مر جاتی ہیں،
یہ شائد میری زندگی کی کچھ اذیت ناک راتوں میں سے ایک رات ہے میں جب بھی سونے کے لئے لیٹتا ہوں میرے سامنے عائشہ کا روتا ہوا چہرہ آجاتا ہے میں اٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں پھر قلم اٹھاتا ہوں پھر کچھ لکھ دیتا ہوں کہ شائد میرے لکھ دینے سے ہی میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے کیونکہ عائشہ نے جاتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ سر مرنا تو ایک دن سب نے ہے اللہ کو جواب تو ایک دن سب نے دینا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :