چینی گڑ

پیر 30 نومبر 2020

Aftab Shah

آفتاب شاہ

بڑے دنوں سے میرے ذہین میں چینی گڑ کی گردان چل رہی تھی ۔آج وقت نے تھوڑی گنجائش دی ہے کہ اس چینی گڑ گردان کی گتھی سلجھا سکوں۔اور اس عوامی مسلئے کو اجاگر کر سکوں،آج ایک بڑے پیچیدہ موضوع   پر قلم کو حرکت دینے کا موقعُ مل رہا ہے۔جس میں گندی سیاست کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس سیاست نے عوام کو جینے کی لائق بھی نہیں چھوڑا ۔۔
کہتے ہیں سیاست ایک خدمت ہے ،
مگر ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔

اس سیاست نے جب بھی چوسہ ہے ،غریب کے خون سے ہی اپنی پیاس بجھائی ہےل،لگاتار خون چوسنے کے باوجود اسکی پیاس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔غریبوں کی تعداد بھی اپنی رفتار سے بڑ رہی ہے۔غریب ،غریب سے غریب تر ہو رہا ہے۔
یوں تو ہر کاروبار سیاست دانوں کے پاس ہے ۔
لیکن ان میں سے چینی کے کاروبار نے زبردست دھوم مچائی ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

چینی کے اس دھندے میں بشمار سیاستدان شامل ہیں ،جن کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔

ان میں قابل ذکر شریف گروپ ، ترین گروپ ، خسرو بختیار گروپ ،شمیم خان گروپ اور بشمار دوسرے نام شامل ہیں۔اس شوگر مافیا نے کاٹن کی انڈسٹری کی کمر توڑ دی ہے۔زمینوں کو بنجر اور پانی کی قلت پیدا کر دی ہے۔
سیاستدانوں  کا یہ بڑا زبردست کاروبار ہے جو کہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے ۔ اور چینی غریب کی پہنچ سے دور ، دور تر ہو تی جا رہی ہے۔یہ سیاسی لوگ اپنے من چاہے ریٹ سیٹ کرتے ہیں اور خوب منافع کماتے میں اور سیاسی اثر رسوخ استعمال کرتے ہیں۔

کسان کو گنے کی پوری قیمت نہیں دیتے ۔اپنی مرضی کے ریٹ سے گنا خریدتے ہیں۔کسان کو قسطوں میں رقم واپس کرتے ہیں ۔ اور اس پر بھی ۱۰% رقم کاٹ لیتے ہیں۔
ریاست کو اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ تاجر تجارت کرے اور سیاستدان سیاست کرے۔ریاست کو ایسا قانون لانا ہو گا کہ یہ مافیا سیاست میں نہ آ سکے۔
یہ دونوں اکٹھے ایک کرسی پر بیٹھے اچھے نہیں لگتے  اور یہ بات نہ ہی عوام دوست ریاست برداشت کرتی ہے۔


میرے ناقص ذہین میں ایک بات آئی ہے۔کہ ہم چینی کا استعمال کم کریں، چینی کے بجائے گڑ کو ترجعی دیں۔اور گڑ بھی کسی غریب کسان سے خریدیں تاکہ اس کا فائدہ ایک غریب کسان کو پہنچ سکے اور کسان کو اسکا حق مل سکے۔
ہمیں جاگنا ہو گا ورنہ ہمارا خون پانی سے سستا بکے گا۔ آٹا مافیا ، گھی مافیا جیسے سیاسی بدمعاشوں نے عوام کی زندگی مشکل سے مشکل بنا دی ہے ۔
مار خور کو اس شوگر مافیاسمیت  دوسرے  تمام خوراک مافیا پر بھی نظر ڈالنی ہوگی ۔تاکہ معشیت کا یہ نظام درست سمت میں جا سکے۔عوامی مسائل کو حل کرنا اور نشاندہی کرنا بھی فلاہی ریاست کی جانب اک قدم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :