کرونا اور بگڑتی معیشتیں

پیر 13 دسمبر 2021

Aftab Shah

آفتاب شاہ

کرونا پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے ۔کرونا سے کچھ دوستوں کے پیارے بھی اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔کچھ دوست اس کو ڈرامہ اور کچھ لوگ اس کو حقیت  لکھتے و بولتے ہیں ۔
لیکن میں تو اس کو پہلے دن سے  ہی ایک ڈرامہ ہی لکھ اور کہہ رہا ہوں ۔
موت کا ایک ایسا خوف پیدا کیا گیا  کہ ہر انسان  اپنی جان بچانے کے چکروں میں پڑ گیا۔میں یہ نہیں کہتا کہ کرونا کا جراثیم موجود نہیں ۔

وہ تو موجود ہے لیکن ڈر خوف نے لوگوں کو  ذہنی مریض کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔
انسان اپنے جیسے انسان سے ہی ڈرنے لگا ۔۔۔۔
آج میرا موضوع کرونا کیوں اور کیسے نہیں ہے ۔
اس پر میں نے بہت کچھ لکھا !!!
کرونا کے جادو نے کیسے لوگوں کی جمع پونجی خرچ کرا ئی ۔
لوگوں کی آمدن تو ختم ہو گی ۔

(جاری ہے)

لیکن خرچے وہی رہے جس سے ایک اچھے خاصے گھر کی معشیت کا جنازہ نکل گیا ۔

جہاں پر لوگوں کی بڑی تعداد  غریب ہوئی وہی کافی سارے لوگ  امیر بھی ہو گے ۔
جمع پونجی ختم ہو گی بات ُادھار پر آ  پہنچی!!!
بزنس مین نے بھی اپنی چُھری تیز  کی اور خوب لوٹ مار شروع کر دی  -طلب و رسد متاثر ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں اتار اور چڑھاؤ شروع ہو گیا۔
اس میں ایک چھوٹے بزنس مین سے لے کر بڑے مگرمچھوں نے لوٹ مار کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ۔


ایک گھر سے بگڑتی معشیت شہر اور شہر سے ملک تک جا پہنچی ۔
اور یوں  ایک سلسلہ شروع ہو گیا ۔
جن ملکوں کی معشیت پہلے سے  ہی ہچکولے لے رہی تھی وہ مزید عدم توازن کا شکار ہو گئی۔
کرونا ماسڑ  نے ماسڑ سٹروک کھیلا اورسب  ہلا کر رکھا دیا۔
تیل کا کنٹرول بھی ایک خاص لابی کے ہاتھ میں ہے جو اپنی مرضی سے اسکا بٹن آن آف کرتے رہتے ہیں ۔

جس کا اثر مارکیٹ میں موجود ساری اشیا پر پڑھتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کو تو اس بات کا فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی جی ڈی  پی ٹھیک ٹھاک ہے ،فرق تو غریب ملکوں کو پڑتا ہے  جو پہلے سے ادھار  لے کر اپنی معشیت چلا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف جیسے اداروں کے چُنگل میں جکڑے ہوئے ہیں ،جب پیٹرول کی قیمت اوپر جاتی ہے تو جن ممالک کا اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کا انصار تیل پر ہے انکی کمر مزید جھک جاتی ہے ،بجلی مہنگی ہو جاتی ہے اور اسکا اثر مہنگائی کے طوفان کی صورت میں آتا ہے۔


ٹیکس چور تو مارکیٹ میں پہلے سے موجود ہیں جو جہاں چیز ایک روپیہ بڑھنی چاہیے وہ من چاہی  قیمت بڑھا لیتے ہیں۔
بیورو کریسی کو مرعات الگ سے گاڑی ،گھر، نوکر ،چاکر  مفت پیٹرول اور ایک موٹی تنخواہ الگ سے ہر ماہ دی جا رہی ہے جو پاکستان کے خزانے پر ایک بہت بڑھا بوجھ ہیں اور پھر  دفتر میں ائر کنڈشنر  اور ہٹر لگا کر خزانے پر مزید بوجھ ڈالنے کے علاوہ رتی برابر کام نہیں کرتے ہیں ، جونک کی طرح پاکستان کے خزانے کو کھا رہے ہیں۔


ذخیرہ اندوزوں نے  بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔
لاکھوں بوریاں مختلف (اشیا خورد و نوش ) بڑی آسانی سے چھپا کر مہنگائی کے اس طوفان میں اپنا پورا پورا حصہ ڈال رہے ہیں ۔
قصور وار سارے  عمران خان  کو ہی ٹھہرا رہے ہیں اور ان کو ٹھہرانہ بھی چاہئیے کیونکہ آپ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں ۔
لوگوں کو آپ سے امیدیں ہیں ۔آپ نے جو وزراء کی ایک فوج اکھٹی کر رکھی ہے  یہ کم کریں اور کام کرنے والے امانت دار لوگوں کو سامنے لائیں۔

چینی ،گھی ،تیل ،سیمنٹ ،لوہا کے  مالکان یا کوئی بھی ربط  ہے کو گھر کی راہ دیکھائیں۔
یہی وہ  وزراء ہیں جو مہنگائی  پر بتوکی دلیلیں دے کر عمران خان کو بد نام کر رہے ہیں۔
پاکستانی اٹالین  کمیونٹی کی جانب سے ایک عرض!
عمران خان صاحب اٹلی میں موجود قریب دو لاکھ سے زیادہ پاکستانی ، جو محنت کر کے پاکستان میں موجود اپنے  پیاروں کا پیٹ پالتے ہیں ۔


ہر ماہ ایک خطیر رقم زرمبادلہ کی صورت میں بھجتے ہیں۔
لیکن ان کو ویزہ کے لئے ذلیل کیا جا رہا ہے۔
ایک ایک سال سے لوگ ایمبیسی کا چکر لگا رہے ہیں۔
انکے کاغذات کی تاریخ ختم ہو جاتی ہے لیکن بغیر رشوت کے کام نہیں ہوتا ۔پاکستان  اسلام آباد    اٹالین ایمبیسی میں فیملی اور دیگر ویزہ  کے لئے لوگوں کو خوار کیا جا رہا ہے ۔کرپشن کا ایک بازار گرم ہے لاکھ دو لاکھ جہاں پر کوئی پھنس جاے ،اپوائنمنٹ  کے لئے رقم لی جا رہی ہے ۔وزارت خارجہ  اور وزارت داخلہ والے کدھر سو رہے ہیں ؟
اوورسیز پاکستانیوں کی درخواست !!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :