کرونا ایک نعمت

منگل 31 مارچ 2020

Afzal Chaudhry

افضل چوہدری

گذشتہ پندرہ دن سے سو نہیں پایا تھا۔ سوچ کے جس متجسس حسار میں مسلسل اپنے آپ کو مقید ھوتا دیکھ رھا تھا وہاں سے کچھ امن آتشی رواداری اور بھائی چارے کے پھوٹتے ھوئے  شگوفے بھی دکھائی دے رھے تھے۔ مگر بیان کی جسارت اس خوف کے مارے نہیں کر رھا تھا کہ مجھے جنم دینے والے معاشرے کے  حلال فتوے اور اتحادی تنازعے کہیں میرے دامن کو مزید داغدار نہ کر دیں۔

کیونکہ میرا تعلق بھی اس خود ساختہ مقدس معاشرے سے ھے جس سے بالخصوص ملاں مافیا اور بالعموم استاد مافیا ۔ سیاستدان مافیا اور صحافی مافیا نے سوال کا حق چھین کر تحقیق کا دروازہ بند کر دیا ھے۔ جس میں تقلیدی تحقیق قابل فخر اور تخلیقی تحقیق کو کفر کے فتووں کا سامنا رہتا ھے۔
کرونا نے جہاں سات ارب انسانوں کو ذھنی اور اعصابی لحاظ سے مفلوج کر دیا ھے وھاں آنے والے دنوں میں اسے ایک نعمت کے طور پر یاد بھی کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

جس کی دلیل مضمون کے آخر میں دینے کی جسارت کروں گا۔
جہاں کرونا وائرس کی منصفانہ کاروائیاں  دنیا کو سماجی دوری کا درس دے رھی ہیں وھاں یہ چنیوتہ بھی سرعام ھو رھا ھے کہ دنیا میں سپر پاور نہ تو کوئی ملک ھے اور نہ کوئی مذھب۔ نہ کوئی ٹیکنالوجی دائمی ھے اور نہ کوئی سائنسی تھیوری حتمی اثر رکھتی ھے۔
سپر پاور کائنات میں ایک ھی ھے۔ جس کو ھم دیکھ نہیں سکتے جس کو ھم چھو نہیں سکتے۔

جو ہر طاقت سے بالاتر ھے جس کو مختلف زبانوں میں مختلف ناموں سے پکارا اور پوجا جاتا ھے۔ اللہ ۔خدا۔ خداوند۔ یہواہ۔  گاڈ۔ ایشتا ۔بھگوان ۔ایہورامزدہ اور افریقی دنیا میں نیامبی اسی کے نام ہیں۔
کرونا کی حکمرانی نے جہاں خانہ کعبہ کا طواف رکوایا ھے وھاں کلیسا کی گھنٹیاں بھی بند کروا دی ہیں۔ جہاں دیوار گریہ پر پابندی لگوائی ھے وھاں آتش کدے بھی ماند پڑ گئے ہیں۔

ایک طرف مندر کے نغمے بند ھوے تو دوسری طرف بدھا کے مجسمے سے دوری اختیار کروا دی۔ کہیں سائنسدان فعل ھوتے دکھائی دئے اور کہیں پیر فقیر عامل صوفی بے بس اور روپوش ھو گئے۔  کہیں سپر پاور کہلانے والی طاقتیں بے بس دکھائی دیں اور کہیں دنیائے عالم پر بادشاہت کرنے والے تنہائی اختیار کرنے پر مجبور ھوئے۔ تنہائی جسے ایک زحمت سمجھا جاتا تھا آج اسے نعمت پکارا جا رھا ھے۔

جو منہ ڈھانپنے پر پابندی لگاتے تھے آج منہ ننگا رکھنے پر جرمانہ عائد کر رھے ہیں۔ جو تنظیمیں رنگ نسل مذھب سے بالا تر ھو کر ہر کسی کو گلے لگانے کا کہتی تھیں آج باپ بیٹے کو ہاتھ ملانے سے منع کر رھی ہیں۔ غرضیکہ کرونا راج پوری طرح نافذ ھے ۔
کرونا راج سے چھٹکارہ پانے کے لئے جہاں مغربی اتحادی سر جوڑے بیٹھے ہیں وہاں جنوب مشرقی تنازعوں کے اتحادی اسے سازش ثابت کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔

جہاں جدید دنیا کے سائنسدان ہمہ تن گوش اپنی اپنی لیبارٹریوں میں مصروف عمل ہیں وہاں کچھ مذہبی ٹھیکیدار اسے یہودیوں کی سازش کہہ رھے ہیں۔ خود ساختہ پڑھے لکھے جاہل تو اسے امریکی سازش کہہ ھی رھے تھے مگر حد درجہ جاہلانہ  بات تو پاکستان کے سابقہ اسمبلی کے سپیکر اور اقوام متحدہ میں رھنے والے سفیر حسین ھارون نے کی اور  جاہلیت کے اس منصب پر پہچ گیا جہاں اسے کچھ دلیل سے بات کرنے والوں کی تلخ باتوں کا سامنا کرنا پڑا۔

حسین ھارون نے تو یہ دعوی کر دیا کہ کرونا وائرس قدرتی ھے ھی نہیں بلکہ لینارٹری میں تیار کیا گیا ھے۔
معذرت کے ساتھ عرض کیا ھے کہ نااھل قوموں کو ورثے میں جو سب سے بڑی وراثت ملی وہ اپنی ناکامیوں اور نااھلیوں کو چھپانے کے لئے ماضی کے قصے اور ہر بے بسی کو مغرب یا کفار کی سازش کہنا ملا۔ آج بھی اندھیر نگری کے چوپٹ راجے ۔ نیم دانشور اور سوشل میڈیا کے خود رو پودے سر توڑ کوشش میں ہیں کہ اس قدرتی آفت کو کسی دنیاوی طاقت کے ساتھ منسوب کیا جائے۔


حالانکہ دنیا اب ایک گلوبل ولیج بن چکی ھے۔ اور کرونا وائرس  سے سب سے زیادہ جدید دنیا متاثر ھو رھی ھے۔ چین۔ امریکہ۔ اٹلی۔ سپین۔ فرانس اور جرمنی سب سے زیادہ متاثر ھونے والے ممالک ہیں مگر پھر بھی ھم مقتول کو قاتل ثابت کرنے کے لئے بضد ہیں۔ یہاں تک کہ  پاکستان سے کچھ بین الاقوامی سوچ رکھنے والے دانشور دوستوں کی کالیں  آئیں اور اسرار کرنے لگ گئے کہ  ھمارا خانہ کعبہ تو بند ھو گیا ھے مگر اسرائیل میں دیوار گریہ کی زیارت کھلی ھے۔

پھر مجھے دلیل کے ساتھ انہیں کچھ ثبوت بھیج کر ثابت کرنا پڑا کہ دیوار گریہ اسی طرح بند ھے جیسے خانہ کعبہ۔
اگر ھم انسانی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پہلے بھی  کرونا وائرس جیسی وبائی امراض کروڑوں نہیں بلکہ اربوں انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل چکی ہیں۔ 429  سال قبل مسیح یونان سے پھوٹنے والی طاعون کی وبا سے تقریباً لاکھوں لوگ  لقمہ اجل بنے۔

165 عیسوی میں روم سے پھوٹنے والی وبا سے تقریباً ایک کروڑ لوگ موت کی وادی میں گئے۔ 541 عیسوی میں یورپ سے اٹھنے والی وبائی مرض نے تقریباً دس کروڑ لوگوں کو موت کی نیند سلایا۔ 1331 عیسوی میں جنوبی افریقہ سے پیدا ھونے والی وبا نے لگ بھگ بیس کروڑ لوگ وادی موت میں دھکیلے۔ سترھویں صدی عیسوی میں وبائی امراض کی وجہ سے بیس کروڑ سے زائد لوگوں نے موت کو گلے لگایا۔

اٹھارویں صدی عیسوی میں بیس لاکھ سے زائد لوگ زندگی کی بازی ھارے۔ انیسویں صدی عیسوی میں لگ بھگ ایک کروڑ پچیس لاکھ لوگ جان سے گئے۔
اور ابھی کل کی ھی بات ھے کہ بیسوی صدی میں وبائی امراض ساٹھ کروڑ سے زائد لوگوں کو نگل گئیں۔  مگر آج جدید ترین صدی کے شروع   میں ھی وبائی امراض کا شکار بننے والے تقریباً 75000 لوگ ہیں جس میں آج 29  مارچ 2020  تک صرف 30 ہزار لوگوں کی موت کا الزام کرونا راج پر ھے۔


بلاشبہ جہاں کرونا دنیائے عالم کے گلی محلوں میں بے خوف وخطر اور سرعام دھندناتہ شب و روز بغیر سوئے گشت کر رھا ھے۔ وہاں ایک طرف تو مذہبی مقدس مقامات بند ھوگئے ہیں ۔ مذھب کے نام پر شرینیاں بانٹنے ۔ شفائیں بیچنے۔ پھونکے مارنے ۔ ہر مسلے کا حل اور ہر مرض کی دوا  تعویز سے کرنے والے گدی نشینی کے دعویدار روپوش ھو گئے ہیں تو دوسری جانب سائنسدان کرونا کو شکست دینے کے لئے نت نئی ایجادات کے ساتھ ہر روز برسرپیکار نظر آ رھے ہیں۔


کرونا کی تباہ کاریاں یہ پیغام دے رھی ہیں کہ سپر پاور ایک خدا کی ذات ھے۔ شہزادہ چارلس۔ بورس جانسن۔ امریکی سینیٹر۔ جرمن چانسلر۔ کینیڈین وزیراعظم کی اھلیہ اور دنیا کے بڑے بڑے سٹارز صرف اس ایک طاقت کے سامنے بے بس نظر آ رھے ہیں۔
لکھاری کرونا وائرس کو نعمت اس لئے کہہ رھا ھے کہ جدید دنیا ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات پر اندھا دھند یقین کرنے کے ساتھ ساتھ سپریم طاقت کو بھول رھی تھی۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا میں آئے روز کوئی نہ کوئی انسانیت کے منافی سازش جنم لیتی تھی۔  انسانی تاریخ میں پہلے جتنی بھی قدرتی آفات یا وبائیں آئیں تو لوگ اس طرح سے کبھی بھی ایک دوسرے سے روابط میں نہیں تھے جتنے کے آج ہیں۔ پہلے وبائی امراض ایک مخصوص خطے تک رھتی تھیں مگر آج  چائنہ سے اٹھنے والے کرونا نے جہاں ھمسایہ ممالک میں پڑاو کیا وہاں دور دراز کے براعظموں دنیا کے ایک جانب آسٹریلیا اور دوسری جانب امریکہ کو بھی نہیں چھوڑا۔

یعنی معلوم دنیا میں کرونا نے اپنی تقسیم بالکل منصفانہ جاری رکھی۔
جہاں بدھ مت اس سے متاثر ھوئے وہاں ہندوؤں اور جین مت والوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ تاؤ مت اور کنفیوشس کو ماننے والے بھی برابر مستفید ھوے۔  جہاں مسلمانوں کا گھیراو کیا وھاں عیسائی اور یہودی بھی برابر کے حصہ دار رھے۔ کرونا ھمیں یہ پیغام دے رھا ھے کہ سپریم پاور ایک خدا ھے اور اس خدا کی ہر نعمت یا عذاب کسی بھی مذھب۔

فرقہ۔ رنگ ونسل۔ کمیونٹی یا ملک سے بالاتر ھوتا ھے۔ ساری مخلوق ایک ھی خالق کی پیدا کردہ ھے۔ اور خالق اپنی مخلوق سے غیر منصفانہ رویہ نہیں رکھتا۔ اسی لئے کبھی کبھی  دنیاوی خداؤں کو جھنجھوڑ کر باور کرواتا رھتا ھے کہ انبیا کی زمین ملک شام کو مختلف عالمی سازشوں سے فرقہ واریت کی آڑ میں برباد مت کرو۔ اسی لئے ہمیں یاد کرواتا ھے کہ کشمیر میں مذہبی بنیادوں پر ظلم مت کرو بلکہ انسانیت کی بنیاد پر انصاف کرو۔

اسی لئے ہمیں تنبیہہ کرتا ھے کہ روھنگیا کے مسلمان بھی میرے پیدا کردہ انسان ہیں انہیں قرنطینہ میں مت مارو۔ اسی لئے ھمیں کہتا ھے کہ مشرق وسطی میں کردوں کو جینے کا حق دو۔ اسی لیے ھمیں جھنجھوڑتا ھے کہ قادیانی بھی میرے پیدا کردہ انسان ہیں انہیں انسانی بنیادوں پر جینے کا حق دو۔ کبھی یہ بھی کہتا ھے کہ مسلک اور مذھب کی بنیادوں پر کفر کے حلال فتوے مت بانٹو۔

ہمیں جھنجھوڑتا ھے کہ نہتے فلسطینیوں کے خون سے مقدس زمین کو سرخ مت کرو۔ ورنہ کرونا وائرس جیسے عذاب اکثر آیا کریں گے اور روح زمین پر بسنے والے انسانوں کو انسانیت کی بنیاد پر بھائی چارے کا درس دیا کریں گے۔ کیونکہ کرونا کی ویکسیین جب بھی بنے گی ھم اس کا مذھب یا فرقہ نہیں دیکھیں گے۔ یہ بھی نہیں دیکھیں گے کہ یہ ہندو نے بنائی ھے یا بدھ مت نے۔

یہودی نے بنائی ھے یا قادیانی نے۔ مسلم نے بنائی ھے یا عیسائی نے۔ بلکہ بنانے والے کو محسن انسانیت کا نام دیں گے۔ میرے جیسے بہت سارے لوگ جو انسانیت کو مذھب اور رنگ و نسل سے بالاتر ھو کر دیکھتے ہیں ان کا یہ ماننا ھے کہ کرونا جیسے موذی مرض سے تو ھم چھٹکارا پا ھی لیں گے مگر دوسری جانب شائد یہ کروناوائرس بچنے والی دنیا کے لئے بہت حد تک امن آتشی ۔ ھم آھنگی اور رواداری کا سبب بنے۔
اللہ میرا اور آپ سب کا حامی و ناصر ھو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :