کالے کوٹ ، سفید کوٹ

جمعہ 13 دسمبر 2019

Ahmed Khan

احمد خان

کا لے اور سفید کو ٹ والوں کے درمیاں جا ری سرد جنگ کا نتیجہ آخر کار ایک المیہ کی صورت میں نکلا ، پی آئی سی پر جس طر ح سے وکلا ء حملہ آور ہو ئے اس روش کو کسی طور صائب قرار نہیں دیا جاسکتا ، احتجاج اور صدائے احتجاج بلند کر نے کے ایک چھو ڑ ہزار وطیر ے اور بھی ہیں ، کیا ضروری ہے کہ احتجاج ریکارڈ کر نے کے لیے سرکاری املا ک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جا ئے ، ایک ایسا ادارہ جس میں دامے درمے سخنے ہی سہی بہر طور زندگی اور موت سے نبرد آزما مریضوں کا علاج ہو تا ہو اس ادارے پر یلغار کی جائے ، ایک پڑھے لکھے طبقے سے ایسے فعل کی تو قع بہر حال نہیں کی جا سکتی ۔


 وکلا ء طبقے کو معاشرے میں قانون پسند تصور کیا جاتا ہے اگر قانون پسند گروہ قانون شکنی کی راہ پر چل پڑ ے سوال تو پھر اٹھیں گے اور پو ری شدت سے اٹھیں گے ، اس سے انکار نہیں کہ قانون سے رو گر دانی کے قومی سانحات اور واقعات میں کالے کو ٹ والے ہر اول دستے کا کردار ادا کر تے رہے ہیں ماضی قریب میں عدلیہ بحالی تحریک کو اپنے خون سے رنگین کر نے والے یہی کا لے کو ٹ والے تھے اگر عدلیہ بحالی تحریک کو وکلا ء اپنا کندھا پیش نہ کر تے اغلب امکان یہی تھا کہ عدلیہ بحالی تحریک کا خواب خواب ہی رہتا ، عدلیہ بحالی کے بعدمگر وکلا ء برادری جس راہ پر گامز ن ہے باشعور حلقوں میں اس پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے ۔

(جاری ہے)

 دیکھنے میں آرہا ہے کہ وکلا ء برادری اپنے ہر معاملے کو آئینی اور قانونی ہا تھوں کے بجا ئے بہ زور بازو حل کر نے کی سعی کر تی ہے ، پی آئی سی المیہ میں بھی قانون کا سہارا اگر کالے کو ٹ والے لیتے شاید معاملا ت اس حد تک نہ الجھتے ، جہا ں تک سفید کوٹ والوں کا تعلق ہے۔ معاشرے کی اکثریت ان کے رویوں سے شاکی ہے ، بجا کہ معاملہ کو اس نہج تک پہنچا نے کا سہرا ڈاکٹر صاحبان کے سر ہے جن کے ایک ویڈیو نے کا لے کو ٹ والوں کی جذبات کو مجروح کیا ، کیا ضر وری تھا کہ ایک آپس کے ایک قضیے کے بارے میں ایک صاحب لہک لہک کر کا لے کوٹ والوں کی تضحیک کر تے ، ایک سنجیدہ اور حساس معاملے پر غیر سنجیدہ انداز میں تبصر ہ کر نا کسی طور سفید کو ٹ والوں زیب نہیں دیتا ، المیہ کیا ہے ، وکلا ء برادری اور ڈاکٹر دونوں اعلی تعلیم کے ہنر سے لیس گر دانے جاتے ہیں ، اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ طبقات کے اس مڈ بھیڑ پر کیا تبصرہ کیا جا ئے ، سوال مگر اہم تر یہ ہے کیا معاملات کے سدھار کا قرینہ یہ ہوا کر تا ہے ؟
 اگر وکلا ہ برادری کو ڈاکٹروں سے شکو ہ شکا یت تھی تو سنجیدہ طور پر اس کے حل کرنے کی سعی کر تے بوجوہ مگر ایسا نہیں کیا گیا، نتیجہ کیا نکلا ، ڈاکٹر صاحبان اپنے پلیٹ فارم پر معاملے کو ” ہوا “ دیتے رہے اور کا لے کو ٹ والے اپنے پلیٹ فارم پر معاملے کو ” تیلی “ دکھا تے رہے ، یو ں ایک دوسرے کے خلاف بھڑ کائی جا نے والی نفرت کی آگ کا نتیجہ پی آئی سی کی تباہی و بر بادی کی صورت میں نکلا ، ذرآگے چلتے ہیں ، اس سارے قصے میں حکومت وقت کہاں تھی ، اس معاملے پر گہر ی نظررکھنے والو ں کے خیال میں حکومت کو ” معصومیت “ کی سند عطا نہیں کی جاسکتی ، وکلا ء اور ڈاکٹروں کے بیچ کئی دنوں سے کشید گی پا ئی جا رہی تھی ، ایک دوسرے کے خلاف دونوں فریق سڑکو ں پر تھے ، اگر حکومت وقت اس وقت معاملے کی نزاکت کو محسوس کر کے دونوں فریقوں میں بیچ بچا ؤ کر لیتی شاید پی آئی سی کا سانحہ رونما نہ ہوتا ، مگر حکومت وقت کے اعلی دماغوں کے پاس معاملے کو سلجھا نے کا شاید وقت ہی نہیں تھا ، طرفہ تما شا ملا حظہ کیجئے جب معاملہ مارو یا مر جا ؤ تک جا پہنچا تب بھی حکومت سستی کی کمبل سے نہ نکل سکی ، کا لے کو ٹ والے پو رے جا ہ و جلا ل کے ساتھ پی آئی سی کی طرف رواں دواں تھے اس وقت بھی مگر حکومت اور حکومتی ادارے بہتر حکمت عملی نہ دکھا سکے ، اگر کالے کو ٹ والوں کو پی آئی سی سے منا سب فاصلے پر روکا جا تا اورمذاکرات کے ذریعے معاملے کو سنبھالا جاتا قوی امید کی جاسکتی ہے کہ حالات بھیا نک رخ اختیار نہ کر تے ۔

 چلیے اگر پی آئی سی کی عمارت پر مناسب حفاظتی انتظامات حکومت کر تی پھر بھی معاملات ہا تھ سے نہ نکلتے ، مگر حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ اس سارے قصے میں کہیں بھی حکومت نظر نہیں آئی ، اگر حکومت سیاسی تدبر سے کام لیتی تو سارا معاملہ آسانی سے بغیر کسی نا خوش گوار واقعے کے کنا رے لگ جا تا ،سچ کیا ہے ، کا لے کو ٹ والے اپنی انا کے اسیر تھے اور سفید کو ٹ والے اپنی انا کے خول میں بند تھے ،اور جس نے دونوں فریقوں کے درمیاں پل کا کر دار ادا کر نا تھا وہ سارے معاملے سے بے خبر رہے ۔ بہر طور کا لے اور سفید کوٹ والوں کو اپنی ادا ؤ ں پر غور کر نا چا ہیے ایسا نہ ہو کہ ان کے رویوں اور طر زعمل سے تنگ آکر پو ری قوم ان کے خلاف کو ئی ” سانحہ پی آئی سی “ بر پا نہ کر دے ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :