” ہما رے سیاست داں بھی ہیں کیسے کیسے “

منگل 18 فروری 2020

Ahmed Khan

احمد خان

کیا آپ جا نتے ہیں کہ ہما رے عوامی نما ئندوں کی پا رلیمان کی بیٹھک جب سجتی ہے اس پر عوام کی خون پسینے کا خرچ کتنا آتا ہے ، سن لیجئے پا رلیمان کے اجلاس کا ایک منٹ غربت اور مسائل کے دلدل میں دھنسی عوام کو لا کھوں میں پڑتا ہے ، منتخب عوامی نما ئندوں کی تنخواہیں اوربھا ری بھر کم مراعات کہاں سے ادا ہو تی ہیں ، انہی عوامی محصولات سے جو عوام سے طر ح طرح کے ناموں سے وصول کی جاتی ہیں ، پارلیمان میں مگر ہو تا کیا ہے ، دور جا ننے کی زحمت قطعاً نہ کیجئے گا ، حالیہ اسمبلی اجلاس میں کیا ہوا ، کس کس طر ح سے ایک دوسرے کی ” خبر لی گئی پوری داستاں آپ کے سامنے ہے ، جناب بلا ول بھٹو نے کیا تقریر کی ، اس تقریر میں مستعمل الفاظ کیا تھے اور ان کا سیدھے سبھا ؤ مفہوم کیا تھا ، جواب در جواب میں میں شعلہ بیاں رکن اسمبلی مراد سعید گر جے برسے ، ان کی تقر یر کا لب لباب کیا تھا ، عبدالقادر پٹیل صاحب بھی ذاتیات کے معاملے میں نہ صرف پیش پیش رہے بلکہ بہت سی حدوں کو پار بھی کر گئے ، ایک ایسا عوامی ایوان جس پر پوری قوم کی نظریں جمی ہو تی ہیں ، سب سے بڑھ کر جس ایوان میں خواتین کی ایک کثیر تعداد مو جودہوتی ہے ، اس ایوان میں جناب عبدالقادر پٹیل نے ایسی تقریر کی کہ جس کا ایک لفظ بھی دہرا یا نہیں جا سکتا ، بات صرف مو جودہ اجلاس کے واقعات ، انداز و اطوار اور انداز بیاں کی ہو تی ، قوم طوعا ً کر ھا ً صبر کا گھونٹ پی لیتی ، مگر پا رلیمان میں سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش اور ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے پارلیمان کی پہچان بن چکے ، ایوا ن زیریں کا کو ئی ایک اجلاس بتلا ئیے جس میں حزب اختلاف اور اہل اقتدار نے سنجیدہ پن کا مظاہرہ کیا ہو، کو ئی ایسا اسمبلی اجلاس بتلا ئیے جس میں دونوں طر ف سے صرف عوامی مسائل پر پر مغز تقاریر کی اور تجا ویز پیش کی گئی ہوں ، پاریمان کا کو ئی ایسا اجلاس بتلا ئیے جس میں عوامی مسائل کے حل کے بارے میں حزب اختلاف اور اہل اقتدار نے ایکا کیا ہو، ایوان بالا ہو یا ایوان زیریں دونوں کا مقصد عوامی امنگوں کی تر جمانی کر نا ہے ، عوام بڑی امیدوں سے ایوان زیرں میں اپنے نما ئندوں کو ووٹ کے ذریعے سے پہنچا تے ہیں ، منتخب ہو نے کے بعد عوام کو تو قع ہو تی ہے ان کے نما ئندے عوام کے مسائل کے حل کے لیے صدا بلند کر یں گے ، عوام کے مسائل کے حل کے لیے ایڑ ی چو ٹی کا زور لگا ئیں گے ، عوامی مفادات کے لیے یہ منتخب نما ئندے آواز اٹھا ئیں گے ، عوام کی زندگیوں کو سہل بنا نے کے لیے قانون سازی کا فریضہ سر انجام دیں گے ، مگر ہو کیا رہا ہے ، منتخب عوامی نما ئندے عوام کو یکسر بھول کر پارٹی مفادات اور ذا تی پوا ئنٹ اسکورنگ میں اپنی توا نیاں صرف کر نا شروع کر دیتے ہیں ، ایوان زیر یں ہو بھلے ایوان بالا حزب اختلاف اور اہل اقتدار کا سارے کا سارا زور ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے میں صرف ہوتا ہے ، سیاسی مخالفت اور سیاسی پوا ئنٹ اسکورنگ میں بسا اوقات معاملات ذاتی جھگڑوں تک پہنچ جا تے ہیں، معصومانہ سی عر ض ہے اگر آپس کی لڑا ئی ہی لڑ نی ہے ، ایک دوسرے کی ” ناک “ ہی سیدھی کر نی ہے پھر خدا را یہ فعل پا رلیمان کے باہرانجام دیجئے، ٹی وی سیاسی پروگرام اس کے لیے حاضر ہیں ، عوامی جلسہ گا ہ آپ کے لیے مو جود ہیں ،عوامی چوک اور چو بار ے ایک دوسرے پر تنقید کے لیے مو زوں مقامات ہیں ، ان مقامات پر دل کھول کر اپنی دلو ں کی ” بھڑاس “ نکا لیے، بہر طور پارلیمان کو ذاتیات کے لیے استعمال نہ کیجئے ، اسمبلی کا ایک اجلاس کروڑوں میں قوم کو پڑتا ہے ، ایک ایسا ملک جس کے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے تر س رہے ہیں ان کی خون پسینے کی کما ئی کے ضیاع سے گر یز کیجئے ، ذاتی رنجشیں ، ذاتی مخالفتیں اور آپس کی نظریاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر جب پا رلیمان میں جا ئیں تو عوام کے مسائل اور حقوق کے لیے آواز بلند کیجئے ، نہ صرف آواز بلند کیجئے بلکہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملا ً اپنا کردار ادا کر نے کی سعی کیجئے ، ہما رے سیاست داں ہمیشہ گلہ کر تے پا ئے جا تے ہیں کہ ہر طبقہ فکر ان پر تنقید کے نشتر بر ساتا ہے ، حضور جب آپ پا رلیمان میں عوام کے حقوق کے بجا ئے ذاتیات کی سیاست کا پر چار کر یں گے ،جب آپ عوام کے مفادات کی جگہ ذاتی رنجشوں کو بڑھاوا دیں گے ، جب آپ کی تقاریر تعمیری تنقید کے بجا ئے ذاتی جذبات کی عکا سی کر یں گی ، ظاہر سی بات ہے پھر عوامی اوطاقوں میں سیاست دانوں پر تنقید کے گو لے تو بر سیں گے ، ماضی میں کیو ں جمہو ریت کا بو ریا بستر گول ہو تا رہا ، اس وجہ سے کہ سیاست داں اسی طر ح ایک دوسرے کے خلاف سر گر م عمل رہے ، ایک دوسرے کے خلاف سیاسی فضا کر ” آلو دہ “ کر تے رہے اور آخر کار معاملات اس حد تک بگڑ جا تے کہ پھر کسی اور کے ہاتھ میں زمام اقتدار چلا جاتا ، مقام افسوس مگر کیا ہے ، ہما رے سیاست دانوں نے ماضی سے رتی برابر سبق نہیں سیکھا ، کل کلاں تک مسلم لیگ ن اور پی پی پی کا آپس کا طرز عمل مخاصمانہ تھا ، آج ذاتی کشمکش کے کھیل میں تحریک انصاف بھی شامل ہو چکی ، آخر کب ہما رے ارباب سیاست سیاست کو سیاست سمجھ کر اپنا کر دار ادا کر یں گے ، ظاہر سی بات ہے اس نکتے کا جواب ہما رے سیاست دانوں کے سوا کسی کے پاس نہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :