قوم کے مسیحا کو رونا کی آفت میں امید بن کر ابھر ے ہیں ایک ایسی بیماری جو لا علا ج ہے اس سے اپنے ہم وطنوں کو بچا نے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے والے ڈاکٹر اور طبی عملہ واقعی سلو ٹ کا مستحق ہے جنگ کی دہشت ہو یا امن کی بہار انسانی خدمت کے باب میں ہمارے ڈاکٹر ہر اول دستے کا کردار ادا کر تے ہیں ، حسب روایت حالیہ قدرتی آفت میں ایک بار بھر ہمارے ڈاکٹرصاحبان اور طبی عملے نے ایک روشن مثال قائم کر دی ، ایک ایسی بیماری کے مریض کہ جن کو لاحق مر ض سے ڈاکٹر وں کی اپنی زندگیاں داؤ پر لگ سکتی ہیں مگر انسانی خدمت کے جذبے سے لیس ہمارے ڈاکٹر اور ان کا معاون طبی عملہ کو رونا کے مر یضوں کے علا ج کے لیے دن رات کمر بستہ ہیں ، صحت عامہ کی ” پس ماندگی “ بھلا کس سے پو شیدہ ہے لیکن ناکافی طبی سہو لیات کے باوجود ہمارے ڈاکٹر صاحبان جس طر ح سے اس وبا کے خلاف سر گرم عمل ہیں ، پو ری قوم کی زباں پر ان کے لیے تحسین اور دعا مچل رہی ہے ، شعبہ صحت سے جڑ ے مسیحا ؤ ں کا جذبہ اپنی جگہ قابل داد ، حکومت وقت کا مگر فر ض عین ہے کہ ڈاکٹر وں اور طبی عملے کی زندگیوں کو مامون بنا نے کے لیے فوری طور پر اقدامات کر ے ، آنا ً فاناً ان سہو لیات کا اہتمام حکومت وقت کے سر ہے جن سے طبی عملے کی زندگیا ں محفوظ ہو سکیں ، کورونا کے خلاف جاری جنگ میں پو لیس کا کردار بھی بہتر ین ہے بطور قوم ہم اپنی پو لیس سے ہمیشہ گلہ مند رہے مگر ہر مشکل ہر بلا ہر آفت میں پو لیس ہی ” آگے آؤ بھئی “ کا کردار ادا کر تی ہے کو رونا کے قضیے میں پو لیس کا کردار دیکھیے اور اپنے اپنے رویوں پر غور کر نے کی زحمت کیجئے ، جو قوم اپنا بچا ؤ کر نے میں اتنی غیر سنجیدہ ہے ، اس سے کسی کار خیر کی کیا توقع باندھی جا ئے ، حالیہ بحران میں پو لیس کا رویہ عام شہر یوں کے ساتھ نہایت مہذبانہ اور مو دبانہ ہے ، تہذیب کے دائر ے میں رہتے ہو ئے پولیس ہر فر د کو قانون شکنی سے روک رہی ہے اور کو رونا سے بچا ؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کر نے کی تلقین کر رہی ہے ، طر فہ تماشا مگر ملا حظہ کیجئے کہ پو لیس کی نرمی سے شہر ی غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں ، پورا دن پولیس جس طر ح سے فرائض منصبی ادا کر رہی ہے اور ہما رے ” باشعور شہری “ جس طر ح سے پو لیس کو زچ کر رہے ہیں ، افسوس صد افسوس “ ہو کیا رہا ہے ، پو لیس والے دکان داروں اور ریڑ ھی بانوں کو قانون کی ” سیدھ “ میں کر تے ہیں تو دوسری جانب خریدو فروخت کے لیے تشریف لا نے والے شہری قانون کے ساتھ کھلوا ڑ شروع کر دیتے ہیں ، جب پو لیس کے شیر دل جوان عام شہر یوں کو صراط مستقیم پر کر نے میں بہ مشکل کا مران ہو تے ہیں عین اسی دوران گلیوں اور گھرو ں کی چھتوں پر سے ” بو کا ٹا بو کا ٹا “ کے نعرے بلند ہو نا شروع ہو جا تے ہیں ، جس کا سیدھے سبھا ؤ مطلب یہ ہے کہ کو رونا کے خطرے سے بچاکہ آپ نے ہمیں گھروں کو بھیج دیا ہے مگر دیکھ لیجئے ہم چھتوں پر چڑھ کر قانون کا مذاق اڑا رہے ہیں ، کچھ کر نا ہے تو کر لو ،گو یا ہماری پو لیس ایک چو مکھی لڑا ئی لڑ رہی ہے ، کو رونا کے خلاف پو لیس سینہ تان کر کھڑی ہے ، جہالت کے خلاف پو لیس ” تبلیغ “ کا فریضہ بھی سر انجام دے رہی ہے ، قانون کو ہاتھ میں لینے والوں سے پولیس کے جوان الگ سے دو دو ہاتھ کر نے میں مصروف عمل ہیں ، ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے ، آخر ہمیں عزت راس کیو ں نہیں ، یہی پولیس اگر ایک دن بازارو ں ،گلیوں ، چوکوں اور چوباروں میں ” مولا بخش“ کا بے دریغ استعمال کر لے ، ہماری یہی پو لیس کسی ایک گلی محلے کے چند اوباش جوانوں اور ان کے والدین کو تھا نوں کی سیر کرا دے ، یقین کیجئے چند دن تو دور کی بات ہے ہم سب سالوں تک گھر وں سے نکلنے کا نام بھی نہ لیں بلکہ پو لیس سے خواب میں بھی پنا ہ ما نگیں گے ، حالیہ بحران میں پو لیس کے کردار اور شہر یوں کے منفی رویوں کو دیکھتے ہو ئے یہ کہنے میں کو ئی عار نہیں کہ ہماری قوم ڈنڈے کی تابعدار قوم ہے ، شرافت کے سامنے ہم شیر اور ڈنڈے کے سامنے ہم بھیگی بلی ہیں ، صد شکر ادا کیجئے کہ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او سے لے کر ایک پو لیس کے جوان تک اب تک مہذب انداز و اطوار سے قانون کی بالا دستی کے لیے سر گر داں ہے ، آپ کی عزت و احتشام کو مد نظر رکھ کر آپ سے قانون پر عمل درآمد کی در خواست کر تا ہے اور ہم ہیں کہ قانون کو پا ؤ ں تلے روندنے کو اپنا فخر اور بہا دری سمجھتے ہیں ، خدا را اپنے رویوں اور اعمال میں قانون پسندی کا ” نمک “ شامل کیجئے اور مہذب شہریوں والارویہ اپنا ئیے ، بہر طور ایک نادان قوم کے بھلے کے لیے جس طر ح سے ڈاکٹر ، پولیس اور واپڈا کے افسران اور جوان اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں وطن عزیز کے باشعور اور قانون پسند طبقے کے لبو ں پر ان کے لیے بے شمار دعائیں رقصاں ہیں ، ہر مصیبت اور آفت میں خد مت سر انجام دینے والے قوم کے مسیحاؤں اور پویس کے جوانوں ہمیں تم پر ناز ہے ، آپ ہمارے ماتھے کا جھو مر ہو ، قوم آپ کو سلو ٹ کر تی ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔