” ہا ں ! یاد آیا “

پیر 11 مئی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

ایک بادشاہ کا کسی بستی سے گزر ہوا ،بادشاہ نے دیکھا کہ ایک محنت کش گدھوں پر بوجھ لا دے جا رہا ہے ، تمام گدھے قطار میں بڑے ضبط سے چلے جا رہے ہیں ، بادشاہ نے رک کر محنت کش سے پو چھا کیا گدھے قطار سے ادھر ادھر نہیں ہو تے ، محنت کش نے جواب دیا ، بادشاہ سلا مت جو گدھا قطار توڑ تا ہے میں اسے سزا دیتا ہو ں ، سزا کے خوف سے یہ قطار میں چل رہے ہیں ، بادشاہ نے محنت کش سے کہا کہ میرے ملک میں بد امنی کا دور دورا ہے کیا میرے ملک میں امن قائم کر نے میں میری مدد کر سکتے ہو ، محنت کش نے بادشاہ کا کہا مان لیا ، بادشاہ نے اپنے ملک میں اسے انصاف کا منصب عطا کر دیا ، محنت کش کے سامنے پہلا مقدمہ چوری کا پیش ہو ا ، محنت کش نے چور کا تعین کر نے بعد حکم دیا چور کے ہاتھ کا ٹ دو ، یہ سنتے ہی وزیر باتدبیر کے متعمد خاص نے محنت کش کے کان میں سر گو شی کی ، اسے چھو ڑ دیجئے یہ وزیر کا خاص بند ہ ہے ، محنت کش نے سر گو شی سننے کے بعد پھر کہا کہ چور کے ہاتھ کا ٹ دو ، بات بگڑتی دیکھ کر وزیر مو صوف آگے بڑھے اور محنت کش کے کا ن میں سر گو شی کی ، جناب والا یہ میراخاص بند ہ ہے اسے معاف کردیجئے ، محنت کش نے بلند آواز میں حکم دیا چور کے ہاتھ کا ٹ دو اور وزیر کی زبان کا ٹ دو ، ہاں اس قصے سے یاد آیا ، گئے وقتوں میں کو ئی سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوا تھا جس میں معصوم خواتین تک کو نہیں بخشا نہیں گیا ، ان معصوم خواتین کو سر کار نے سرکار کی گو لیوں سے بھو ن ڈالا تھا ، بلند و بانگ دعوؤں ، وعدوں اور شور شرابے کے باوجود کچھ معلوم ہے اس سانحہ کے ذمہ داروں کو سزا ہو ئی کہ نہیں ، ایک سانحہ ساہیوال کا بھی بڑا چر چا رہا ، انصاف پسند حکومت کی جانب سے سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کو کڑی سزا دینے کے اعلا نات کیے گئے ، ہوا مگر اس کے بر عکس ، کچھ زیادہ ہی پر لے دنوں کی بات ہے کراچی میں ایک کا رخانے کو دیدہ و دانستہ آگ لگا ئی گئی تھی ، جس میں سینکڑوں بے گنا ہ جا نوں کو آگ کا ” بالن “ بنا یا گیا تھا ، اس سانحہ کے ذمہ داروں کو تختہ دار پر لٹکا نے کے تند و تیز بیانات مسند اقتدار کے مکینوں کی جانب سے داغے گئے تھے، عملا ً مگر کیا ہوا، ہنوز مگر مظلوم خاندان انصاف کی راہ تک رہے ہیں ، یاد رکھیے کو ئی بھی معاشرہ انصاف کے زریں اصولوں کی بنیاد پر نہ صرف کھڑا ہو تا ہے بلکہ پروان بھی چڑھتا ہے ، ہما رے ہاں مگر انصاف کے حصول کے لیے حضرت نو ح کی عمر اور حضرت ایوب کا صبر چاہیے ، انصاف کا بول بالا اور ظلم کا منہ کا لا دیکھنے کے لیے اس قوم نے عدلیہ بحالی تحریک پر اپنی جانیں تک نچھاور کیں ، عدلیہ تو بحال ہو گئی مگر عوام کے ارماں ارماں ہی رہے، پھر سادی قوم نے انصاف کے نام پر قائم سیاسی جماعت تحریک انصاف کے دامن میں اپنے ووٹ ڈال دئیے، انصاف کے اسم گرامی سے منسوب تحریک انصاف بھی اقتدار میں آنے بعد مگر انصاف کی تیز تر فراہمی میں وہ کا ر ہا ئے نمایاں رقم کر نے سے قاصر رہی ہے جس کی توقع عوام نے انصاف کے باب میں تحریک انصاف سے باندھ رکھی تھی ، انصاف کی فراہمی میں تاخیر در تاخیر ہی وہ نکتہ ہے جس کی بنا پر عام آدمی کا نظام عدل سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے ، اقوام عالم میں دنوں میں انصاف مل جا تا ہے ، ہمارے ہاں کبھی وکیل نہیں ہوتا کبھی مد عی نہیں ہو تا کبھی گواہ نہیں ہوتا ، تلخ سچ کیا ہے یہ کہ نچلی عدالتوں میں مقد مات چیو نٹی کی رفتار سے چلتے ہیں ، عوام میں کیا تاثر تیزی سے فر وغ پا رہا ہے ، یہ کہ ہر مظلو م کی فریاد عدالت عالیہ سنے یا عدالت عظمی ، سوال یہ ہے جلد اور ایسا انصاف جو ہوتا ہوا نظر آئے اس کے لیے قانون سازی کس نے کر نی ہے ،عیاں سی بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ، اگر انصاف کی فراہمی کی راہ میں پائے جا نے والے نقائص کو ہمارے حکمران دور کر تے ، شاید آج انصاف کے حصول کے لے عام آدمی در در کی ٹھو کر یں نہ کھا تا ، جب ظلم کر نے والوں کو معلوم ہو تا کہ ظلم کا انجام بے رحم انصاف ہے پھر نہ سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہو تا نہ سانحہ ساہیوال میں معصوم بچے یتیم ہو تے نہ کرا چی میں کھلے عام خون کی ہو لی کھیلی جاتی ، ظالم کے ہاتھ روکنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی معاشرے میں انصاف کا یکساں نظام رائج کیا جا ئے ، ایسا نظام عدل کہ ” محمود و ایاز “ دونوں کے لیے انصاف یکساں حرکت میں آئے ، کم نصیبی کہہ لیجئے کہ ہمارے ہاں عملاً” سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا “ چلن عام ہے، طاقت ور کے لیے قانون خود ہزار چور راستے فراہم کر تا ہے ، اس کے بر عکس عام آدمی کو اپنی بے گنا ہی ثابت کر نے کے لیے سالوں لگ جا تے ہیں ، اپنے اپنے مفادات کے لیے شیر و شکر ہو نے والی ہماری سیاسی جماعتیں کیا انصاف کی تیز تر فراہمی کے باب میں قانون سازی کے لیے ایک نہیں ہو سکتیں ، یہی وہ سوال ہے جو تحریک انصاف ، مسلم لیگ ، پی پی پی اور پارلیمان میں موجود سب جماعتوں سے آج عوام کر رہی ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :