خمار ناک

منگل 26 مئی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

 لیجیے ایک ٹکٹ پر دو مزے لینے کا سواد آگیا ، انتہا ئی نا گفتہ بہ حالات میں بھی معمول کی طر ح سب کچھ ہوگیایعنی عید بھی سنور گئی اور ناک بھی کٹنے سے رہی ، ظاہرہے اگر عید پر نئے کپڑ ے زیب تن نہ کر تے ، لش پش جو تے پا ؤ ں کی زیب نہ بنتے ، دوستوں،رشتے داروں اور ملنے جلنے والوں میں ناک کٹ جا تی ، ملنے جلنے والے طر ح طرح کی باتیں کر تے ، کو ئی کہتا ارے بڑی بڑی باتیں کر تے ہیں اور جیب میں دھیلا تک نہیں ، کو ئی کہتا بچوں کو نسبتاً ” پرا نے “ کپڑ وں میں دیکھ کر دل پسیج گیا ، صد شکر کچھ حکومت نے کر م فر ما ئی کی کچھ خود بہادری دکھا ئی ، کو رونا کو پس پشت ڈالا بازار گئے بلکہ کئی کئی بار گئے ، مر ضی کے کپڑ ے اور جو تے لیے ، کھا نے پینے کی ڈھیروں ڈھیر چیزیں خرید یں ، وہ جو ہر وقت نظروں میں تو لتے رہتے ہیں ، اپنی ” امارت “ کی شو خی سے ایسا کرارہ جواب دیاکہ اگلی عید تک منہ بسورتے رہیں گے ، ہمارے اسلاف خمار گندم کے گرویدہ تھے سو خمار گندم کی آن بان شان میں ایک ایسا زندہ جاوید مضمون لکھ مارا جو ہر نسل میں خوب داد و تحسین کا حق دار ٹھہرا ، حالیہ عید پر اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے قوم نے جس طر ح سے حکومت وقت کی التجاؤں کو ٹھو کر ماری ، یہ صورت حال اگرہمارے اردو کے اسلاف دیکھتے ، یقین جا نیے وہ خمار گندم کے بجائے خمار ناک کے ایسے قائل ہو جا تے کہ اس نامراد پر ایک چھوڑ کو ئی سینکڑوں مضامین رقم کر لیتے ۔

(جاری ہے)

۔۔
 آپس کی بات ہے ہماری معاشرتی اور سماجی رویوں میں ناک کاعمل دخل کچھ زیادہ نہیں ہوگیا ، ہر معاملے میں جس طر ح سے یہ کم بخت ناک آڑے آجا تی ہے معاشرتی اور سماجی زندگی کا کو ئی بھی معاملہ ہو تان آخر کار ناک پر ہی آکر ٹو ٹتی ہے ، گویا ناک نے پورے معاشرے کی ناک میں دم کر رکھا ہے، کیا خیال ہے اسے کا ٹ نہ لیں ، نہ رہے گی ناک نہ رہیں گے اتنے جنجال ، ایک طرف قوم کے غرباء بھو ک کے ہاتھوں خود اپنی جان لے رہے ہیں ، برقی ذرائع ابلاغ پر خاتون خانہ نے کس کرب سے اپنے شوہر نامدار کی خودکشی کا درد ناک واقعہ بیان کیا کہ بھو کے بچوں کی وجہ سے باپ نے موت کو گلے لگا یا ،یہ کو ئی فسانہ نہیں بلکہ زمینی حقائق ہیں وطن عزیز میں غربت کے بارے کس حال میں جی رہے ہیں جنہیں رب کریم نے دولت سے نواز رکھا ہے وہ اندا زہ نہیں لگا سکتے، ہمارے اردگرد بے شمار ایسے گھرانے مو جود ہیں جنہیں پیٹ بھر کر کھا نا نصیب نہیں ہوتا، اس عہد جدید میں بھی بے شمار گھرانے ایسے ہیں کہ محض دس روپے کا ادھار چکا نے کے لیے وہ شرمندہ لہجے میں چند دن کی مہلت مانگتے ہیں ۔

۔۔
 دوسری جانب جن کے پاس روپے کی فراوانی ہے وہ ” خمار ناک “ کے مر ض میں ایسے مبتلا ہیں کہ توبہ ہی بھلی صرف اپنی ناک بچانے کی خاطر ہزاروں لاکھوں روپے پانی کی طر ح بہا دیتے ہیں اگر اس عید پر نئے کپڑ ے نہ بنتے تو کو ن سی قیامت آجاتی اگر اس عید پر نئے جو توں کے لیے بازار کا رخ نہ کیا جاتا پھرکو ن سی عید کی خوشی ادھو ری رہ جا تی ، ہمارے ہاں روایتی پیشہ ور مانگنے والوں کی تو ہر روز عید ہوا کر تی ہے ، پیشہ ور مانگنے والوں کے معاملے میں پاکستانی معاشرہ حد درجہ سخی واقع ہوا ہے، سفید پوش مگر غربت کے ہا تھوں نہ مرتے ہیں نہ جیتے ہیں ، ان کی پرواہ اس لیے ارد گرد والوں کو نہیں کہ اپنے منہ وہ مانگتے نہیں اور بغیر مانگے دینے کی ریت ہمارے اسلا می معاشرے میں ہے نہیں ، یہی وجہ ہے کہ عید کے دن صاحب حیثیت و صاحب دولت کے گھر میں خوشیاں رقص کر تی ہیں ، طر ح طرح کے کھا نے بنتے ہیں ، زرق برق لباسوں کا ”مقابلہ حسن “ ہوتا ہے ، قہقہے گو نجا کر تے ہیں ، خرمستیوں کا راج ہو تا ہے جبکہ عید کے انہی دنوں میں سفید پو ش گھرانوں میں غربت کے ارماں آنسوؤں کی صورت میں بہہ رہے ہو تے ہیں ، غریب کے گھر عید کے دن اداسی بال کھو لے سو رہی ہو تی ہے ،مفلسی کا رقص کبھی دیکھنا ہو تو عید کے دن کسی حالات کے مارے لا چار کے گھر میں جھا نک کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجیے، بہر طور ہمیں غریب سے کیا لگ اور غربت کی کیا پرواہ ، ہماری عید تو ہو گئی اور ناک بھی کٹنے سے رہ گئی ، غربت جا نے غریب جا نے ہمیں اس سے کیا سروکار ، ہاں مگر ناک سے ذرا اوپر ایک دماغ نام کی شے ہو ا کرتی ہے اور ناک سے ذرا نیچے دل نام کا ایک بادشاہ بھی جسم میں دھڑ کتا ہے ، کبھی ناداروں اور سفید پو شوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کر لیجیے، ان کے دکھ بانٹنے میں اپنے مال کا کچھ حصہ ” فدا“ کر لیجیے ، اس چھوٹی سی نیکی سے آپ کے دماغ اور دل کو کتنی خوشی اور سکون ملتا ہے ، آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے ، آزمائش شر ط ہے بس ایک بار ذرا سی ہمت کر کے ناک کے حصاراور خمار سے نکل کر تو دیکھیے،لا چا روں کی مدد کر کے جو خوشی آپ کو حاصل ہو گی وہ آپ کو ناک کے خمار سے بھی ہمیشہ کے لیے آزاد کر دے گی اور آپ کا دنیا اور آخرت کا بھی ساماں ہوجا ئے گا ۔

 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :