”مافیا کس چڑیا کا نام ہے“

جمعرات 2 جولائی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

لگے چند سالوں میں پاکسان کی سیاست میں مافیا کی اصطلاح خوب زبان زود عام ہو ئی ، اب ذرا ساحکومتی یا عوامی سطح پر کو ئی معاملہ ڈگمگا جا ئے دوسال کا بچہ بھی کہنا شروع کر دیتا ہے کہ اس سارے قضیے میں ضرور بہ ضرورمافیا کا ہاتھ ہے، امور مملکت سے وابستہ اکابرین سے جہاں کہیں ” نااہلی “ سر زد ہو تی ہے اس نااہلی کو مافیا کے کھا تے میں ڈال کر عوام کے بھڑا س کارخ اس جانب مو ڑ دیا جا تا ہے وطن عزیز میں عملاً کسی نہ کسی صورت اسی مافیا کی حکومت ہے ، آلو کے کاروبار سے لے کر چینی ، آٹا اور تیل مصنوعات جیسی عوام سے لگ کھا نے والی اشیا ء پر موٹی توندوالوں کی حکمرانی ہے ، آلو کی رسد میں کب مصنوعی قلت پیدا کر کے کروڑوں جیب میں ڈالنے ہیں ، ٹما ٹر کو کب منڈیوں سے گدھے کی سینگ کی طر ح غائب کر نا ہے ، گنے کے کاشت کار کو کیسے رسوا کر کے اونے پو نے داموں گنا لینا ہے ، چینی کو ” در آمد بر آمد “ کے لفافے میں ڈال کیسے اربوں کھر بوں کھر ے کر نے ہیں ، تیل مصنوعات کے اتار چڑ ھا ؤ کی زنجیر کیسے اور کب ہلا نی ہے ، کس طر یقے سے تیل مصنوعات کی قلت پیدا کر کے تیل کے دام بڑ ھا نے ہیں ، ساراقصہ آنکھو ں کے سامنے ہے ، ، لگے چند ماہ میں کھلے بندوں قانون کے ساتھ مذاق کا سلسلہ عرو ج پر رہا ، ایک اچھی بھلی حکومت کے ہو تے ہو ئے قانون کو پاؤں تلے رو ندا گیا ، حکومتی ایوانوں سے بلند و بانگ دعوے کیے گئے ، لا قانونیت کے علم برداروں اور ہوس کے بیو پاریوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کے وعدے کیے گئے مگر کیا ہوا ، آلوٹماٹر والوں کا بال تک بیکا نہ ہو سکا ، آٹے اور چینی کے سوداگروں کا معاملہ مکڑ ی کے جالے میں پھنس چکا ہے ، تیل مصنوعات کے دادا گیروں نے کم وپیش ایک ماہ تک عوام کو تگنی کا ناچ ناچایا آخر کار مگر ہوا وہی جو تیل کے سیٹھ چا ہتے تھے ، حکومتی ذمہ دار محض چیختے چلا تے رہ گئے اور ہاتھوں پر دستا نے پہننے والوں نے جو چا ہا وہ کر دکھا یا ، تیل مصنوعات سستا ہو نے کی خبر عوام الناس کے لیے محض ایک خوش کن خبر ثابت ہو ئی ، اصل میں تو تیل کے کاروبار سے جڑ ے ” مہر بانوں “ نے دام کھر ے کیے ، تیل سستا ہوا تیل مصنوعات کو ذخیرہ کر لیا جیسے ہی عوام کو حکومت نے یک مشت پچیس روپے کی ” پھکی “ دی ، اربو ں کھر بوں کے مالکو ں نے تیل سر بازار کر دیا ، حساب کتاب کے فن میں تاک خود ہندسوں کے ہیر پھیر کے ذریعے جان لیں کہ کو ن فائدے میں رہا اوردھکے کس کا نصیب ٹھہرے ، آئین اور قانون کی موجودگی میں ہونا تو یہ چا ہیے تھا کہ آئین پاکستان کا چلن ہر سو عا م ہو تا ، کیا کمزور کیا طاقت ور سب کے لیے قانون کی چھڑی یکسا ں حرکت میں آتی ، مہذب معاشرو ں میں قانون کی نظر میں شاہ اور گدا میں کو ئی فرق نہیں ہوا کر تا ، اگر وقت کا بادشاہ بھی قانون کو ” سپر سیڈ “ کر ے قانون اسے بھی معاف نہیں کرتا، سوال یہ ہے کہ مغربی معاشروں کی طرح قانون تو وطن عزیز میں بھی مو جود ہے، پھر طاقت ور کیوں پکڑ ے نہیں جا تے ، ملک اور عوام کے مفاد کو زک پہنچا نے والوں پر قانون کیوں قہر بن کر نہیں ٹو ٹتا ، ہر دوسرے شہر ی کا ذہن اسی سوال میں الجھا ہو ا ہے ، کہنے کو قانون کی پاسداری اور تابعداری کے دعوے ہمیشہ سے کیے جا تے رہے ہیں عملا ً مگر قانون غریب کے لیے سر یا اور طاقت ور کے لیے موم بن جا یا کر تا ہے ، چینی کا استعمال نو ے کی دہا ئی سے قبل بھی وطن عزیز میں عام تھا ، نو ے کی دہا ئی سے قبل بھی پاکستان کے باسی ” خمار گند م “ کے دیوانے تھے ، نوے کی دہا ئی سے قبل بھی تیل کی مصنوعات کا چلن پاکستانی معاشرے میں چل سو چل تھا مگر ان ماہ و سال میں کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ راتو ں رات چینی کی قیمت آسمان کو چھو نے لگی ہو ، نو ے کی دہا ئی سے قبل آٹے کی قیمت کو ایسے پر لگے ہوں تو بتلا دیجیے ، اریب قریب لگی تین دہا ئیوں میں پاکستانی معاشرے میں ” اجارہ داری “ کی وبا عام ہو ئی اور ایسی عام ہو ئی کہ توبہ ہی بھلی ، معاملہ دراصل کہاں سے خراب ہو ا ، جب چور اور چو کیدا کا اندر خانے گٹھ جو ڑ ہوا ، ذاتی مفاد کی وبا نے نو ے کی دہا ئی کے بعد آنے والی حکومتوں کو اپنے لپیٹ میں لیا ، پیسہ لے کر پھنس جا پیسہ دے کر چھو ٹ جا کی رسم کے عام ہو نے سے چور بھی مزے کر نے لگے اور چو کیدار کے دن بھی بیٹھے بٹھا ئے پھر گئے ، ذاتی مفاد کے ” چسکے “ نے چور اور چوکیدار کے رشتے کو خون کے رشتے سے زیادہ مضبوط کر دیا ، جو ں جو ں وقت گزر تا گیا قانون طاقت ور کی ہاتھ کی چھڑ ی بنتا چلا گیا ،ظاہر سی بات ہے جن کے ہاتھ میں قانون کی چھڑی تھی وہی ہا تھ قانون شکن عناصر کے پشت پر کھڑ ے ہونے لگے ، اس یاری نے ” قلیل فیصد “ کو خوب فیض پہنچا یا البتہ اس سارے کھیل میں عوام کی مت ماردی گئی ، آج بھی اگر قانون پورے آب و تاب سے حرکت میں آجا ئے ، دیکھ لیجیے پھر کو ن سا سورما قانون کو ہاتھ میں لینے کی جرات کر تا ہے ، ہر شعبہ اور ہر کاروبار میں مو جود ” مگر مچھ“ کس طر ح سے زیر زمین جاتے ہیں، اصل امتحاں مگر تحریک انصاف حکومت کا ہے جو اس” انجمن امداد باہمی “ کو توڑنے کے نعرے لگا کر اقتدار کے کو چے میں مورچہ زن ہے ، کیا انصافین حکومت اس معاملے میں کو ئی تاریخ رقم کر سکے گی یا سابق حکومتوں کی طر ح قوم کو ” گا ، گے ،گی “ کے الجھا وے میں رکھ کر اقتدار کے کو چے سے رخصت ہو گی ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :