افسر شاہی اختیارات مقدمے میں لا ہور ہا ئی کو رٹ کے چیف جسٹس جناب قاسم خان نے پنجاب کے چیف سیکرٹر ی پر سخت ناراضی کا اظہار کیا بلکہ عالی مرتبت منصف نے متعلقہ مقدمے میں غفلت کے ذمہ دار افسران کو جیل بجھوانے کا عندیہ بھی دیا عین عدالت عالیہ کے پہلو میں ٹھاٹ سے ” جمی “ افسر شاہی کے فرائض منصبی کی ادائیگی کا اگر یہ حال ہے سوچ لیجیے صوبہ بھر بلکہ ملک بھر میں افسران اپنے فرائض کی ادائیگی اور عوام الناس کی داد رسی کے لیے کتنے متحرک ہوتے ہوں گے ، یاد رکھیے کسی بھی حکومت کی نیک نامی اور بد نامی میں نظام سقہ کے یہ ”پپو“ کلیدی کردار ادا کیا کر تے ہیں اگر کسی حکومت کے عہد میں افسر شاہی عوام کی خدمت میں پیش پیش رہتی ہے اس حکومت کا تذکرہ عوام بھلے لفظوں میں کیا کرتے ہیں ، جس حکومت کے عہد میں افسر شاہی ” شاہی پن “ کے راہ پر گامزن ہوا کرتی ہے وہ حکومت عوام کے ہاتھوں رسوا ہوتی ہے ، دل چسپ امر کیا ہے ، ہماری افسر شاہی ہر حکومت کا ” پپو“ بننے میں کمال درجے کی مہارت رکھتی ہے ، جیسے ہی نئی حکومت آتی ہے انصرام کے یہ کمان دار اور ذمہ دار اس کے قصیدے پڑ ھنے شروع کر دیتے ہیں ان کی اقتدار میں آمد پر مٹھا ئیاں بانٹتے ہیں نئے حکمرانوں کی واہ واہ کر تے ہیں، اچھے عہدے کے حصول کے لیے گویا ایک دوسرے پر سبقت حاصل کر نے کی ایک دوڑ سی لگ جا تی ہے ، جیسے ہی حکمران اقتدار کے گھوڑے سے اترتے ہیں سر کار کے نظام کے یہ کمان دار آنکھیں بدلنے میں پل کی دیر نہیں لگا تے جن حکمرانوں کے آنے پر ” جی حضوری “ کے قصیدے پڑ ھے جاتے ہیں اس حکومت کے جاتے ہی اس کے خلاف ” وعدہ معاف “ گواہ بن جاتے ہیں ، جی حضوری کے وصف سے لیس امور مملکت کے یہ ذمہ دار عوام کے لفظی خادم مگر عملاً ً کروفر کی چلتی پھر تی تصویر ہوا کرتے ہیں ، اگر چہ نیک نام افسر بھی سر کار کے مورچوں میں مو جود ہیں اولاً ان افسران کی ” کھیپ “آٹے میں نمک کے مقدار سے بھی کم ہے دوم ایسے نیک دل اور اصول پسند افسران ہر دور میں کھڈے لا ئن لگے رہتے ہیں ، ملین ڈالر ز کا سوال یہ ہے ، ایک نظام کے چلت ہونے اور تازہ دم سرکار کے کمان داروں کے موجود ہو نے کے باوجود عوام کے مسائل حل ہو نے کانام کیوں نہیں لے رہے ، عوام کے مسائل کم ہو نے کے بجا ئے ہر گزرتے دن کے ساتھ کیوں بڑھتے جا رہے ہیں ، سادہ دل قارئین کی خدمت اقدس میں عرض کیے دیتے ہیں ، اس کی سادہ سی وجہ افسر شاہی کا عوام کے مسائل کے حل کے باب میں کامل عدم توجہی اور عدم دلچسپی ہے ، اچنبے کی بات یہ ہے کہ جو افسر شاہی عدالت عالیہ اور اور عدالت عظمی کے احکامات کو سنجیدہ نہیں لیتی بے کس اور لاچار عام شہری پھر کس قطار شمارمیں آتے ہیں ، یہ بھی سنتے جا ئیے کہ عام آدمی کے ساتھ سرکار کے ” خانوں “ میں کیا برتاؤ کیا جاتا ہو گا ، سیاسیات کے نکتہ نظر سے دیکھا اور پر کھا جا ئے تو حکومت کے افسران اور اہل کار عوام کے خادم مانے اور گردانے جاتے ہیں ایک نائب قاصد سے لے کر سیکرٹری تک سب کا اولیں فر ض عام شہری کی آسانی کے لیے کوشاں ہو نا ہے ، سیدھے سبھاؤ یو ں سمجھ لیجیے کہ سر کار کے اہم اور غیر اہم عہدوں پر براجمان افسران اور اہل کاروں کا فر ض اولیں عوام کے مسائل حل کر نا ہے اور عوام کے لیے قدم قدم پر حائل دشواریوں کا خاتمہ کرنا ہے ، وطن عزیز میں مگر اس کے بر عکس چلن عام ہے جس کو سرکار عہدہ نصیب ہو جاتا ہے وہ اپنے دونوں کندھوں پر ” کروفر“ کے فیتے لگا دیتا ہے ، سر کار کے امور کے کمان دار اور ذمہ دار اگر خلوص نیت اور خدا خوفی کے جذبے کے تحت اپنے اپنے فرائض منصبی سر انجام دیں اغلب توقع باندھ لیجیے کہ عوام کے کھٹن مسائل چٹکی بجا تے حل ہو جائیں یہاں مگر سر کار کے امور کی انجام دہی میں ” سر خ فیتے “ کی رسم وبا کی طر ح عام ہے ، جس ریاست کے اعلی عدلیہ کے فیصلوں اور احکامات کو سرکار کے بہادر کو ڑے داں کی نذر کریں اس ریاست میں قانون کی عمل داری اور عام آدمی کی ” خدمت گزاری “ کی توقع دیوانے کا خواب سمجھیے،انفرادی اور اجتماعی طور پر اعلی عدلیہ نے عوام کے مفاد کے حامل معاملات اور مسائل پر فیصلے صادر کیے ہیں ان عدالتی فیصلوں کے باوجود مگر متعلقہ سائلین کے مسائل پر افسر شاہی عمل کر نے کے لیے تیار نہیں ، بہت سے احباب سال ہا سال سے عدالتی فیصلے ہاتھوں میں اٹھا ئے عمل درآمد کے لیے سرکار کے حضور حاضری دیتے دیتے تھک گئے مگر عمل در آمد ندارد ، کیا ہی بہتر ہو اگر چاروں ہا ئی کورٹس اور عدالت عظمی کے قابل صد احترام جج صاحبان صرف ایک دن اپنے ان عدالتی فیصلوں کی سماعت کے لیے مختص کر دیں جو عدالت عالیہ اور عدالت عظمی نے سائلین کے حق میں صادر فرما ئے ہیں اور سرکار کے ” پپو“ سے جواب طلبی کر لیں کہ عدالتوں کے فیصلوں پر سرکار کے ذمہ داروں نے کتنا عمل در آمد کروایا ہے ، یقین کیجیے عدالت عالیہ اور عدالت عظمی کے معزز جج صاحبان کے اس احسن ترین اقدام سے بہت سے لا چاروں کا بھلا ہو جا ئے گا جو ہاتھوں میں عدالتی فیصلے لیے سرکار کے ” پپوؤں “ کے ہاتھوں روز رسوا ہو رہے ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔