” حضور ! اقتدار کرائے کا مکان ہے “

جمعرات 19 نومبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

ایک مذہبی تنظیم کا احتجاج عام شہر ی کو کتنے میں پڑا ایک عام شہری نے کم وپیش دوتین دن کس کر ب میں گزارے شاید حکومتی ایوانوں کے مکین عام شہری کے کر ب کا اندازہ تک نہیں لگا سکتے ، احتجاج کر نے والوں کے احتجاج کا طریق کار درست تھا یا غلط اس بحث کو رکھیے ایک طرف ، حکومت کے کمان دار اور جمہوریت کے دعوے دار مگر جس طرح سے احتجاج سے نمٹے اس پر قر بان جا ئیے ، شہر اقتدار اور شہر اقتدار سے جڑے شہرکے باسیوں کو جن تکالیف کا سامنا کر نا پڑا یہ الگ طو لا نی داستاں ہے ، شہر ناپر ساں سے کو سوں دور شہروں میں حکومت کے اعلی دماغوں کے ہاتھوں شہر یوں کا جو حشر نشر ہوا یہ سمجھ سے بالاتر ہے ، سابقہ حکومتوں کے عہد میں بھی مختلف سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں احتجاج کر تی رہی ہیں مگر کسی بھی حکومت نے ” جا ئے احتجاج “ سے کو سوں دور شہروں کی آبادی کو تکلیف میں نہیں ڈالا ، جناب خان مسلم لیگ ن کے عہد حکومت میں کس طر ح سے احتجاج کے مختلف گر آزماتے رہے ہیں ایک سو چھبیس دن کا دھر نا تو غالباً ہر خاص و عام کو یاد ہو گا، جناب خان کے اس طویل ترین احتجاج میں مگر حکومتی جماعت مسلم لیگ ن نے دوسرے شہر وں میں بسنے والوں کی روز مرہ معمولات میں کو ئی رخنہ نہیں ڈالا نہ ہی جد ید دور کی اہم سہولت یعنی مو بائل سروس کی بندش کی راہ اختیار کی ، جانے حکومت وقت کے کس ااعلی دماغ کا مشورہ تھا کہ روالپنڈی اسلام آباد سے کوسوں دور واقع شہر وں میں مو بائل سر وس بند کر نے کی سبیل اپنا ئی جا ئے بالخصوص پنڈی ڈویژن سے جڑے اضلاع اور تحصیلوں کے باسی موبائل سروس کی بند ش کی وجہ سے جن مشکلات اور مصائب کا شکار رہے اس کی ترجمانی الفاظ میں نہیں کی جاسکتی ، اسلام آباد سے دور آباد شہروں میں اولاً موبائل سروس کی بند ش کا فیصلہ ناقابل فہم ہے ، چلیے اگر طو عاً کر ھاً مو بائل سروس کی بند ش از حد ضروری تھی ہو نا پھر یہ چا ہیے تھا کہ بر قی اور طباعتی ذرائع ابلاغ پر حکومت وقت کی جانب سے باقاعدہ تشہیر کا وطیرہ اپنا یا جاتا ، حکومت وقت کے اس اقدام سے متعلقہ شہروں کے باسی قبل از وقت اس ” حکومتی آزمائش “ سے آگاہ ہو جاتے اس سارے معاملے کی تشہیر کے باب میں بھی مگر حکومت وقت نے اعلی درجے کا ”ماٹھا پن “ دکھا یا ، اچھی بھلی رواں دواں زند گی گویا یک دم رک سی گئی ، غیر اعلانیہ موبائل سروس کی بندش سے جہاں عام شہر یوں کو گوناگوں مشکلات سے دوچار ہو نا پڑا وہی حکومت کے اس اچانک ” افتاد “ سے افواہ ساز فیکٹریوں نے بھی خوب اپنی خواہشات کا دھواں خارج کیا لگ بھگ ان دو تین دنوں میں طر ح طر ح کی افواہوں کا زور عروج پر رہا ، حکومت وقت کو اپنے خلاف عوامی احتجاج سے بھی بطریق احسن نبر دآزما ہو نا پڑ تا ہے دوم حکومت وقت کو اپنی رعایا کی آسانی کی فکر بھی ہمہ وقت دامن گیر ہوا کر تی ہے ، حالیہ احتجاج میں حکومت وقت کے اعلی دماغوں نے اپنے خلاف برپا احتجاج سے نمٹنے کے لیے جو تدابیر اپنا ئیں سو اپنا ئیں مگر عوامی حقوق کے باب میں جمہوریت پسند انصافین حکومت کچھ بھی نہ کر پا ئی ، جناب خان اقتدار سے باہرکے زمانے میں مغر بی اقوام کی جمہوریت کی زریں مثالیں دیتے رہتے ، اقتدار میں آنے کے بعد جناب خان شاید جمہوریت کا وہ سبق خود بھول گئے ۔

(جاری ہے)


حضور ! جمہوریت میں تو ہر لحظہ ہر گام پر عوامی حقوق کو مقدم سمجھا جاتا ہے ، جمہوری حکومت کی اولیں خواہش اور کو شش یہی ہوا کرتی ہے کہ اہل جمہور کو حکومتی اقدمات سے کو ئی زک نہ پہنچے ، بر طانیہ میں پلے بڑھے پڑھے جناب خان جیسے جمہوریت پسند کے عہد زریں میں اگر جمہو ری روایات پر قد غن لگے اگر جناب خان جیسے جمہو ریت پسند کے عہد میں جمہور کے حقوق پامال ہو ں اہل جمہور کاگلہ پھر حق بجا نب ٹھہر تا ہے ، اس کم نصیب قوم کے ساتھ ہمیشہ سے دراصل ” بچہ جمہورا “ کا کھیل اقتدار کے مداری کھیلتے رہے ہیں ، جمہو ریت کے نام لیوا اب راج کر ے گی خلق خدا کے نعرے لگا کر عوام کو ٹر ک کی بتی کے پیچھے لگا کر اقتدار حاصل کر تے رہے ، اقتدار میں آنے کے بعد مگر جمہور کے حقوق کا تحفظ کر نے کی بجا ئے اسی جمہور کے حقوق کو پامال کر نے کی روش اقتدار میں آنے والوں نے اپنا ئی ، اب کے بار بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے ، جمہوری اقدار اور روایات کے امین کے طور پر ابھر نے والے جناب خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو کیسے کیسے سبز باغ دکھا ئے تھے ، اقتدار میں آنے کے بعد جناب خان مگر اہل جمہور کے لیے ہنوز وہ کچھ کر گزرنے سے قاصر ہیں جن کا وعدہ انہوں نے اہل جمہور سے کیا تھا ، اقتدار اورزوال کا چولی دامن کا ساتھ ہے ہر کمال کا مقدر زوال ہے مگر ہمارے حکمران اقتدار میں آنے کے بعد اقتدار کے زوال کو یکسر بھول جاتے ہیں ، آج تلک جو بھی اقتدار میں آیا وہ اسی گھمنڈ میں رہا کہ بادشاہی سدا اسی کی مقدر رہے گی یہ خواب اس وقت چکنا چور ہوتا ہے جب اقتدار اس کے ہاتھوں سے پھسل جا تا ہے ، جناب خان کو چاہیے کہ گھڑی دو گھڑی کے اقتدار میں عوام کی خدمت کے باب میں ایسی خوش نامی کما ئے کہ رہتی دنیا تک رعایا انہیں دعائیں دے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے جانے کے بعد رعایا کی آہ ان کا ہمیشہ کے لیے پیچھا کر تی رہے ، فیصلہ بہر حال جناب خان نے کر نا ہے کہ رعا یا کی دعا لینی ہے یا آہ ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :