” وزیر اعظم شکا یت سیل مفید تر مگر !“

منگل 8 دسمبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

گزشتہ دنوں وزیر اعظم شکا یت سیل اور اس شکایت سیل کی کار گزاری پر خوب لے دے کا بازار گر م رہا حکومت کے ممدوح وزیر اعظم شکایت سیل کی کامرانیوں پر زبانیں خشک کر تے رہے حزب اختلاف سے ربط ضبط رکھنے والے احباب وزیر اعظم شکا یت سیل میں کیڑ ے نکالنے کی رسم ادا کر تے رہے ، سچ پو چھیے تو ستم گر نظام میں وزیر اعظم شکا یت سیل لا چار شہریوں کے لیے اشک شوئی کا ساماں ہے ، بہت سے لا چاروں کی داد رسی وزیر اعظم شکا یت سیل کی بدولت ممکن ہو ئی ، وزیر اعظم شکا یت سیل جناب وزیر اعظم کی جانب سے عام شہر یوں کی داد رسی کی ایک مخلصا نہ کا وش ہے ، المیہ مگر یہ ہے کہ افسر شاہی کی چیرہ دستیوں اور سست رویوں سے پر دہ سر کانے والے اس شکا یت سیل کو ناکام بنا نے کے لیے افسر شاہی ایڑ ی چوٹی کا زور لگا رہی ہے بھلا ٹھا ٹ باٹ کے ہنر سے لیس افسر شاہی کہاں بر داشت کر نے تیار ہے کہ ان کی کو ئی باز پر س کر ے ، مر ضی سے دفاتر جا نے اور مر ضی سے دفاتر سے آنے والی افسر شاہی کی راہ میں کو ئی رکاوٹ ڈالے اور افسر شاہی اس رکاوٹ کو راہ سے سرکانے کی سبیل نہ کر ے ، ناز و نعم کی عادی افسر شاہی کے ماتھے پر وزیر اعظم شکا یت سیل سے جو بل پڑے وہ کسی قطار شمار میں نہیں ، وزیر اعظم شکا یت سیل کے بارے میں عوامی سطح پر سست روی کی شکایت زبان زد عام ہے ، عام شہر یوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شکایت سیل پر کی جانے والی شکا یت پر افسر شاہی سر عت سے کا رروائی نہیں کر تی دوم شکایت کنندہ کی شکا یت کا جواب ” گول مول “ صورت میں دیا جاتا ہے ، بعض دفعہ تو اتھر ے قسم کے افسران شکا یت کر نے والوں پر زندگیاں تنگ کر نے کی سعی بھی کر تے ہیں ،ناقدین کا فر مانا ہے کہ تحصیل سطح پر نمٹائے جا نے والے امور کو وزیر اعظم نے اپنے سر لے لیا ہے،ان ناقدین کا فر ما نا سر آنکھو ں پر مگر تحصیل سطح پر براجمان انتظامیہ اور افسر شاہی سائلین کی داد رسی نہیں کر رہی تبھی بے کس شہر یوں کو چار و ناچار وزیر اعظم کے نام اپنی شکا یت درج کر انی پڑ تی ہے ، ذرا ملا حظہ کیجیے اسسٹنٹ کمشنر ز کی دیگر مراعات کو رکھیے ایک جانب حکومت وقت کی جانب سے انہیں جو قیمتی گاڑیاں دی گئی ہیں کیا یہ گاڑیاں انہیں اپنی ذات اور اہل و عیال کے کاموں کے لیے دو ڑانے کے لیے دی گئیں ، ڈپٹی کمشنر ز کی مراعات کی فہر ست بنا نے کی سعی کیجیے تو قلم کی روشنا ئی ختم ہو جا ئے ، تحصیل اور ضلع سطح کے مسائل جب وزیر اعظم شکا یت سیل پر جا تے ہیں اس کا سیدھے سبھا ؤ مطلب کیا ہے ، یہ کہ متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر اسسٹنٹ کمشنر ز اور دیگر ضلعی افسران تک عام شہر ی کی رسائی نہیں گو یا خلق خدا کی خدمت کے لیے مقرر کیے گئے افسران خلق خدا کو قریب بھٹکنے نہیں دیتے ، وزیر اعظم شکایت سیل کے باب میں دوسری عر ض یہ ہے ، جن اضلاع سے زیادہ شکایات درج ہو ں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان اضلاع میں کام کو چھوڑیں نام کی حد تک بھی افسر شاہی اور انتظامیہ خدمت خلق کے معاملے میں دل چسپی لینے سے گریزاں ہے ، اسی معاملے سے لگ کھا نے والی تیسری گزارش یہ ہے کہ جو افسران وزیر اعظم شکا یت سیل پر درج مسائل حل کر نے میں کا ہلی دکھا ئیں یا سائل کے معاملے میں ” رفع دفع “ کی پالیسی اختیا ر کر یں ان افسران کے خلاف سخت ترین کا رروائی وزیر اعظم آفس روبہ عمل لا ئے ، اب آتے ہیں اس سوال کے جواب کی طرف جو بہت سے ذہنوں میں کلبلا رہاے ہے یعنی وزیر اعظم کو شکایت سیل قائم کر نے کی کیو ں سوجھی ، سیدھا سادہ جواب اس کا یہ ہے کہ یونین کو نسل تحصیل ضلع اور کمشنری سطح تک سرکار کا نظام مکمل طور پر ناگفتہ بہ ہے فوراً سے قبل کسی لا چار شہری کے ساتھ ہو نے والے ظلم کا ازلہ ناممکنا ت میں سے ہے ، عام شہر ی کے لیے وبال بننے والے اس نظام کو درست کر نے کے لیے کیا ” عمر نو ح “ چاہیے ، جی نہیں اس نظام کودرست کر نے کے لیے ” دل گر دہ “اور فقط ایک گھنٹہ چا ہیے ، ہر ضلع میں قانون پسند ایمان دار خداترس اور خلق خدا کی خدمت کے جذبے سے سر شار ڈپٹی کمشنر ، ڈی پی او اسسٹنٹ کمشنرز اور دیگر افسران کا تقرر کر دیجیے ، آپ اپنی انہی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ اسی دن سے عملا ً خلق خدا کا راج قائم ہو جا ئے گا جب محکموں کے سربراہان عوام کے خدمت گار ہو ں گے پھر کس ماتحت کی جرات کہ وہ عوام کے مسائل کے حل میں شانے اچکا ئے ، دراصل بگاڑ کی ابتدا ء ہی اختیار کے وصف سے لیس افسر شاہی سے ہو ئی اور حالات بگڑتے بگڑ تے نوبت یہاں تک آپہنچی ، اب افسر شاہی اور انتظامیہ محض مراعات کی ” تلا ش بسیار “ اور عہدوں سے ” لطف “ لینے تک محدود ہو گئی ، ٹھوس بنیادوں پر اگر سرکار کے نظام کو قانون کی ہتھکڑی لگا نی ہے پھر انتظامیہ میں سخت سزا و جزا کو رواج دیجیے، جب تلک تلوار انتظامیہ کی گردن پر نہیں رکھیں گے اس وقت تک افسر شاہی اور انتظامیہ کا چال چلن ٹھیک ہو نے سے رہا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :