" خلق خدا سے دوری ، انجام ٹھیک نہیں"

بدھ 16 دسمبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

پی پی پی سے لاکھ اختلاف کیجئے مگرعوام سے ربط ضبط میں بہرحال تمام سیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے پی پی پی ہمیشہ سے دوسری سیاسی جماعتوں پر سبقت لیے ہوئے ہے، مکرم بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو تک پی پی پی قیادت کا رشتہ کارکنوں سے بڑا توانا رہا، بے نظیر بھٹو بسا اوقات عام کارکنوں کے معاملے میں اپنی قیادت تک کو جھڑک دیا کرتی تھی اگرچہ پی پی پی کی موجودہ مرکزی قیادت کا تعلق عام کارکنوں سے ماضی والا نہیں ، دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں مگر پھر بھی پی پی پی کے رہنما و زعما اپنے کارکنوں سے قریبی رابطہ بحال کیے ہوئے ہیں۔

پی پی پی کے سیاسی اکابرین عام کارکنوں کے ساتھ ملنے جلنے اور چلنے میں عار نہیں سمجھتے اگر اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی قیادت کا موازنہ کیا جائے ، مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت اور مسلم لیگ ن کے نمائندے اپنے کارکنوں سے کھلے عا م گھلنے ملنے سے عموم احتراز کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ ن کے بہت کم ایسے رہنما ہیں جو عام لوگوں سے تعلق خاطر رکھتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی قصہ پیاری راج دلاری تحریک انصاف کا بھی ہے۔

چند ایک انصافین رہنماوٴں کو چھوڑ کر تحریک انصاف کی قیادت بھی خود کو عوام سے الگ تھلگ مخلوق سمجھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کی اس " پوتر پن" کے رویوں نے عوام کو سیاسی جماعتوں سے دور کر دیا ہے۔ معاملہ صرف تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پی پی پی تک ہی محدود نہیں، کچھ ایسا ہی قضیہ دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادت کا بھی ہے یعنی ایم این اے اور ایم پی اے سطح کے نمائندے ایسے ہیں جو اپنے حلقوں میں اپنی سیاست اپنے چند مخصوص " منظور نظر" کے بل پر کرتے ہیں۔

یہ سیاست داں حکومت میں ہوں تو اپنے خاص کارندوں کے ذریعے عام لوگوں سے ربط رکھتے ہیں، حزب اختلاف کی صفوں میں ہوں اس صورت عموماً عام آدمی کو بے اختیاری کی " سرخ جھنڈی" دکھلا کر ان سے دوری اختیار کی جاتی ہے۔ نوے کی دہائی کے بعد جمہوری سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت میں آمریت بڑی تیزی سے پھلتی پھولتی چلی گئی۔ اپنی مرکزی قیادت کے رویوں میں آمریت کی خوبو کو دیکھتے ہوئے ان سیاسی جماعتوں سے جڑے درجہ دوم اور درجہ سوم قیادت میں بھی عام آدمی سے بیزاری کے رویے بتدریج چڑھتے چلے گئے۔

عوام بالخصوص سیاسی کارکنوں کو سیاسی جماعتوں نے اپنا غلام سمجھنا شروع کر دیازیادہ ترسیاسی جماعتیں یہ سمجھنے لگیں کہ کارکنوں کا کام اپنی سیاسی قیادت کے لیے نعرے لگانا، لاٹھیاں کھانا اور انتخابات میں ووٹ ڈالنا ہے، سیاسی کارکنوں کی اندھی تقلید نے بھی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی گردنوں میں سریا ڈالنے کی روش کو مزید پختہ تر کیاسیاسی جماعتوں کی قیادت نے یوں خود کو برہمن سمجھنا شروع کیا، سیاسی جماعتوں کی قیادت کے اس طرز عمل سے سیاسی قیادت اور کارکنوں میں رشتہ کمزور پڑنے لگا ۔

اب سیاسی جماعتوں میں" مٹھو" طرز کے کارکنوں نے اپنی جگہ مسلّم کر لی جبکہ سیاسی جماعتوں کے لیے ماریں کھانے والے کارکن آہستہ آہستہ دل برداشتہ ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے۔ جلسے جلوس کے وقت اندرخانے ہر سیاسی جماعت شکوہ کناں رہتی ہے کہ عوام ان کے لیے گھر وں سے نہیں نکلتے سیاسی قیادت کی آواز پر لبیک نہیں کہتے اپنی سیاسی جماعتوں کے لیے جیلوں کا رخ نہیں کرتے۔

کارکنوں کو سیاسی جماعتوں سے دور کرنے میں کسی اور کا نہیں سیاسی جماعتوں کا اپنا عمل دخل ہے اگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کارکنوں کو ماتھے کا جھومر بناتے ، سیاسی کارکنوں کی اشک شوئی کا ساماں کرتے، مشکل کی گھڑی میں سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کے سر پردست شفقت رکھتیں ، اقتدار میں آ کر یہ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کے جائز مسائل حل کرنے کی سعی کرتیں ، ماضی کی طرح آج بھی کارکن اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی قیادت پر جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار نظر آتے۔

کم از کم بڑی سیاسی جماعتوں کی آواز پر " جم غفیر " دیکھنے کو ملتی۔ عوام سے شکوہ کناں ہونے کی بجائے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اپنی اداوٴں پر غور کرنا ہو گا۔ سیاسی جماعتیں اگر خود کو جمہوریت پسند کہلواتی ہیں پھر ان سیاسی جماعتوں کو جمہور کے ساتھ نہ صرف یہ کہ رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا بلکہ اہل جمہور کو عزت بھی دینی ہوگی اور اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہونے کے بعد ان سیاسی جماعتوں کو اہل جمہور کے " راج" کے لیے عملی طور پر اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔

سیانے برسوں پہلے فرما گئے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجا کرتی۔ یہ قول کسی پر صادق آئے نہ آئے میدان سیاست اور اہل سیاست پر صد فیصد صادق آتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی دم خم عوام کے مرہون منت ہوا کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے" جم غفیر" آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے سو سیاسی جماعتوں کو اگر زندہ رہنا ہے تو ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کے ساتھ اپنے تعلق کو توانا بنائیں اور اس صورت ممکن ہو گا جب ہر سیاسی جماعت اپنے حقیقی کارکنوں کو سرکا تاج بنائیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :