”دائروں میں گھومتے رہیں“

جمعہ 22 جنوری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

لیجئے ایک اورمالی آسیب کی باز گشت آپ کے کانوں کی نذر ہو چکی، قوم پانامہ کے چسکوں سے ابھی مکمل طور پر نکلی نہیں کہ براڈ شیٹ کا قصہ سربازار ہو چکا، حسب سابق براڈ شیٹ پر سیاست کے بالاخانوں میں گول مول لفظی گولہ باری رکنے کا نام نہیں لے رہی، حزب اختلاف کے مہربانوں اور حکومت کے پردھانوں میں براڈ شیٹ قضیے میں ایک دوسرے پر الزاما ت کا معاملہ شیطان کی آنت کی طرح طول پکڑتا جا رہا ہے، وطن عزیز میں طاقت ورپر جیسے ہی کسی مالی آفت کا قصہ سامنے آتا ہے قانون کی حرکت کی بجائے زبانوں کی حرکت میں تیزی آ جاتی ہے ، پانامہ کے معاملے پر کیسے کیسے تماشے لگائے گئے کس کس طرح سے " قیامت" اٹھائی گئی عملاً مگر پانامہ کے اس سارے داستاں سے حاصل وصول کیا ہوا؟پانامہ سے جڑے مقدمات سے کتنے طاقت وروں کی جیبوں سے عوامی خزانے کی وصولی ہوئی، پانامہ فہرست میں شامل ناموں کو کتنی سزائیں ہوئیں، براڈ شیٹ کے معاملے پر بھی خوب لے دے ہو رہی ہے ، دونوں جانب سے اس تازہ بہ تازہ معاملے پر بھی خوب دھول اُڑائی جا رہی ہے، پانامہ اور براڈ شیٹ چند لمحوں کے لیے میزکی دوسری طرف رکھ لیجئے، ایوب دور سے لے کر مشرف عہد تک طاقتوروں کے کتنے معاملے طشت از بام ہوئے، سیاست اور حکومت سے جڑے"مہربانوں" پر ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے کے کتنے مقدمے بنائے گئے، کتنی گرفتاریاں ہوئیں، ماضی کے ان تمام واقعات کے نتائج کیا نکلے؟ ہر بار قوم قانون کی پاسداری کی توقع باندھ لیتی ہے، ہربار مگر طاقت وروں کا معاملہ" مٹی پاوٴ" پالیسی کی نذر ہو جاتا ہے، براڈ شیٹ کی تمام جزیات سے اگر قوم کو آگاہی ہو بھی جائے ، عملاً یہ معاملہ غلام گردشوں میں کہیں گم ہو جائے گا، دل دکھا دینے والا امر کیا ہے؟ مملکت خداد اد میں لاچار تو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں پس زنداں کر دئیے جاتے ہیں ، طاقت ور قبیلے کے برہمن مگر سنگین سے سنگین جرم کر کے بھی خود کو مکھن سے بال کی طرح نکال لیتے ہیں، آج تلک کس طاقت ور کے ہاتھ کاٹے گئے، آج تلک کس طاقت ور کی زباں بندی کی گئی، بڑے طمطراق سے جن کے خلاف مالی بدعنوانی کے مقدمے درج کر دئیے جاتے ہیں کچھ عرصہ بعد وہی طاقت ور فتح کا نشان بناتے ہوئے اس سے کہیں زیادہ طمطراق سے قانون سے جاں خلاصی حاصل کر لیتا ہے، جس پر ملکی خزانے کو اربوں کھربوں " چونا" لگانے کے الزام عائد کیے جاتے ہیں وہ ارب پتی ملکی خزانے کو کچھ دئیے دلائے بغیر آزاد ہو جاتا ہے، حال کے آئینے میں حالات کو دیکھ لیجئے، احتساب کا نعرہ لگانے والی موجودہ حکومت نے بڑے مگر مچھوں سے کتنا کچھ " وصول" کر لیا ہے۔

(جاری ہے)

سچ پوچھئے تو ہم بس دائروں میں گھومنے والی قوم ہیں، ہر چند ماہ بعد ایک طوفان اٹھا دیا جاتا ہے ، اس طوفان کو موضوع بنا کر قوم کو " ٹرک کی بتی" کے پیچھے لگا کر سبز باغ دکھائے جاتے ہیں کچھ وقت گزرنے کے بعد معاملہ نادیدہ ہاتھ دبا دیتے ہیں یعنی پیسہ ہضم کھیل ختم، آخر کب تک ہم دائروں میں محو سفر رہیں گے کب تک قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر طاقت وروں کو محفوظ راستہ دینے کا چلن عام رہے گا، ملک ایسے نہیں چلا کرتے، قومیں ان وطیروں کے بل پر ترقی اور خوشحالی کے زینے طے نہیں کیا کرتیں، وہی ممالک دنیا کے نقشے پر چند ے آفتاب کی طرح چمکا کرتے ہیں جن ممالک میں حقیقی معنوں میں محمود و ایاز کا قانون کا بسیرا ہو، جہاں شیر اور بکری عملاً ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہوں، جن ممالک میں غریب اور امیر کو یکساں اور بلاتفریق حقوق حاصل ہوں، جہاں انصاف کی فراہمی کا پیمانہ عوام و خواص کے لیے سرعت سے میسر ہو، جہاں ریاست عوام کے لیے " باپ" کی مانند ہو، کیا وطن عزیز میں خاص و عام کے لیے انصاف کا حصول آسانی سے میسر ہے، کیا عام شہری کے حقوق کے لیے قانون اسی سرعت سے حرکت میں آتا ہے جس طرح سے طبقہ اشرافیہ کے حقوق کے لیے قانون چابک دستی دکھاتا ہے؟ کیا روزی روٹی سے تعلیم اور علاج معالج تک کی سہولیات اور مراعات خواص کی طرح عام کو بھی حاصل ہیں؟ ظاہر ہے اوپر کے سطور میں اٹھائے گئے تمام نکات کا جواب نفی ہے، جب تک وطن عزیز میں عام اور خاص قانون کی نظر میں برابر نہیں ٹھہرتے زبانی بیانی حد تک شہد کی نہریں بہانے کے لاکھ دعوے حکمران طبقہ کرتا رہے، عوام کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہونے سے رہا، سیاسی بازی گر گاہے گاہے قوم کو مشغول رکھنے کے لیے نت نئے تماشوں کا بندوبست کرتے رہیں گے اور عوام ان کھیل تماشوں کو دیکھ کر اپنے دل پشوری کرتے رہیں گے، جس طرح کل کچھ نہیں ہوا عین اسی طرح آج بھی کچھ نہیں ہونے والا، دھیرج رکھئے سب کچھ ماضی کی طرح چلتا رہے گا طاقت ور عیش کرتے رہیں گے اور عوام ان کی عیاشیوں کے لیے ایندھن بنتے رہیں گے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :