” سیاست کے چاند “

منگل 26 جنوری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

ندیم افضل چن بھی کو چہ اقتدار سے وداع ہو گئے جناب چن چند ان گنے چنے سیاسی زعماء میں سے ایک ہیں جنہیں نہ صرف عوامی مفاد کا احساس اور ادراک ہے بلکہ عوامی مفاد کے لیے دھڑلے سے کو شاں بھی رہتے ہیں ، چن کی اسی وصف کی بنا پر عوام انہیں سیاست کے چاند کے نام سے جانتے اور پکا رتے ہیں ، چن اچھے بھلے زمین دار ہیں کلا م کے فن میں تاک ہیں ، مزے کی بات کہ مو صوف اوپر سے جاٹ بھی ہیں ، پاکستانی سیاست میں لگے سالوں میں تیزی سے اخلاقیات بتدریج رخصت ہو تی چلی گئی ، پاکستان کی سیاست میں دلیل اور منطق کی جگہ عامیانہ گفتگو کا چلن عام ہو تا چلا گیا ، مملکت خداداد کی سیاست میں اسی سر عت سے شائستہ پن کی جگہ دشنام نے عروج حاصل کیا ، وطن عزیز کی سیاست الزامات در الزامات کا مر بع بنتی چلی گئی ، خرافات اور دشنام کی سیاست گو یا عام سی بات ٹھہری ، تمام سیاسی جماعتوں میں بس گنے چنے سیاسی رہنما رہ گئے جو آج بھی سیاست میں وضع داری اور دلیل سے بات کی رسم کے سر خیل ہیں ، ندیم افضل چن کا شمار اریب قریب ان نایاب ہوتے سیاست دانوں میں ہوتا ہے ، پی پی پی سے جب تک چن وابستہ رہے پی پی پی کی نیک نامی کا باعث بنے رہے ، جب تحریک انصاف کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کی ،بہت سے سیاسی پنڈت تحریک انصاف سے چن کی وابستگی کو تحریک انصاف کے لیے نیک سیاسی شگون قرار دیتے رہے ، تحریک انصاف حکومت میں چن کا شمار ان ” انصافین “ کر م فر ما ؤں میں ہوتا تھا جو عوام کے لیے ” ہلکان “ ہو تے رہے ہیں ، کا بینہ کے اجلاسوں میں ندیم افضل چن عوام کے حقیقی نما ئندہ ہونے کا کردار بڑی خوب صورتی سے ادا کر تے رہے ، عوام سے لگ کھا نے والے کئی معاملات پر چن کی ” ہٹ دھرمی “ نے عوامی اوطاقوں میں خوب داد سمیٹی ، کسانوں کے مسائل اور گرانی کے معاملے پر ندیم افضل چن نے عوام کے نباض کا کر دار ادا کیا ، تحریک انصاف کی اعلی قیادت کا مگر ” سیاسی سگھڑ پن “ ملا حظہ کیجیے، عوام کے حقوق کے لیے لڑ نے والے اپنے ایک بہترین سیاسی کا رکن کو حکومت سے الگ ہو نے پر مجبور کر دیا جو اپنی ذات اپنے مفاد کے لیے نہیں بلکہ عوام کے مفاد کے لیے بے جگری سے لڑ تا رہا ، عوام میں سیاسی جماعتوں کی بڑھتی غیر مقبولیت کے عنصر کے پیچھے سیاسی جماعتوں کی اسی نامعقولیت کا ہاتھ ہے ، جاں باز اورمخلص کا رکنوں سے ہاتھ چھڑا نے کے قضیے میں تمام سیاسی جماعتوں کا حال یکساں ہے ، ایک وقت تھا جب پی پی پی سے وابستگی پر سیاسی کارکن فختر سے سینہ پھلا یا کرتے تھے اسی پی پی پی کے لیے کا رکنوں نے ہنستے کھیلتے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، پی پی پی کی اعلی قیادت کی آواز پر کارکن دیوانہ وار میدان میں کو د جایا کرتے تھے ، پی پی پی کی اعلی قیادت نے مگر جیسے ہی اپنے وفا دار کارکنوں کو نظر انداز کر نے کا وطیرہ اپنا یا وفاق کی علامت گر دانے جانی والی سیاسی جماعت کا ” بھرم “ تیزی سے ٹوٹتا چلا گیا ، مسلم لیگ ن کے ” حاکم “ نواز شریف سے اپنے کا رکنوں کی محبت کی داستاں سے بھلا سیاست اور صحافت کا کون ساطالب آگاہ نہیں ، نوازشریف اور ان کے ہم نوا ؤں نے بھی جب مخلص کا رکنوں کی جگہ ”میاں مٹھو “ طرز کے طو طوں کو اپنے ارد گرد بٹھا نا شروع کیا اس کے بعد مسلم لیگ ن کی عوامی مقبولیت قوم کے سامنے ہے ، اقتدار سے رخصتی کے بعد ” مجھے کیوں نکالا“ تحریک کے وقت ذرا یاد کیجیے نواز شریف کے لیے کتنے کارکن نکلے ، مو جودہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف نبر د آزما گیارہ سیاسی جماعتی اتحاد اپنے کارکنو ں کو گھر وں سے نکالنے میں کیوں کامران نہ ہو سکا اس لیے کہ سیاسی جماعتیں اپنی ” اکڑ پن “ کی وجہ سے مخلص کارکنوں کو ناراض کر چکیں ، تحریک انصاف کا حال بھی مسلم لیگ ن اور پی پی پی والا بن چکا ، حکومت میں آنے کے بعد تحریک انصاف نے جس بری طر ح سے عوام کے ارمانوں کا خون کیا اقتدار کے جانے کے بعد ذراپھر تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت بھی جانچ لیجیے، جو سیاسی جماعتیں اقتدار کے بہار کے دنوں میں چن جیسے عوامی نما ئندوں کے مشوروں پر کا ن نہیں دھر تیں ان کا انجام پھر ایسا ہی ہوا کرتا ہے ،جناب خان کے ارد گرد اس وقت جو ” کر سیوں “ پر براجمان ہیں جو ہر عوامی معاملے میں جناب خان کے کانوں میں سب اچھا ہے کا رس گھول رہے ہیں ، دیکھ لیجیے کپتان کے اقتدار سے رخصتی کے بعد سب سے پہلے اڑن چھو ہو نے والے یہی سیاسی بازی گر ہوں گے ، جمہو ریت کا دم اور سیاست کا خم سیاسی جماعتوں کے مخلص کا رکنوں کی جاں بازی سے قائم رہتا ہے ، سیاسی جماعتوں نے جب سے مخلص کارکنوں کو کھڈ ے لائن لگا نے کی روش اپنا رکھی ہے سیاسی جماعتوں کا ” حجم “ ہر گز رتے دن کے ساتھ سکڑ تا جا رہا ہے ، سیاسی جماعتیں اگر عوام میں خودکو زند ہ و تابندہ رکھنا چاہتی ہیں پھر سیاسی جماعتوں کو عوام کے حقیقی نما ئندگی کر نے والے کارکنوں کو ” برداشت “ کر نے کی خو اپنا نی ہو گی ، عوام کے ان حقیقی نما ئندوں کے فر مودات کو اپنی حکومتی پالیسیوں کا حصہ بنانا ہو گا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :