” کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو “

جمعرات 18 فروری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

جب مرشد اعجاز شاہ وزیر داخلہ تھے تحریک انصاف کے ہمدردوں اور صحافتی حلقوں کے مطابق کلیدی وزارت کا قلم داں ہونے کے ناطے اعجاز شاہ اس طر ح سے حکومت کی تصویر کشی کر نے سے قاصر ہیں جس کا تقاضا وزارت داخلہ کاقلم داں ان سے کر تا ہے اعجاز شاہ کے وزارت داخلہ سے وداع ہو نے میں جو عوامل کار فر ما تھے ان میں سے ایک ان کی کم گوئی بھی تھی ، جناب شیخ کو زوارت داخلہ کا قلم داں ملنے کے بعد عام تاثر تھا کہ گفتگوکے ہر ہنر سے لیس جناب شیخِ صائب اطوار سے حکومت کی ” تصویر “ عوام کے سامنے پیش کر یں گے جس سے عوام میں حکومت کی ساکھ قدرے بہتر ہو سکے گی، جناب شیخ وزیر داخلہ بننے کے بعد حکومت کے لیے آسانیاں پیداکر نے کے بجا ئے مشکلات میں اضافے کا ساماں کر رہے ہیں ، طویل عر صے سے کو چہ سیاست کے مکین ہونے کے باوجود جناب شیخ وزیر داخلہ بننے کے بعدبھی اسی لا ابالی پن کو اپنا ئے ہو ئے ہیں جو ان کی شخصیت کا طرہ سمجھا جا تاہے ، ہو نا تویہ چاہیے تھا کہ حکومت کی انتہا ئی ذمہ دار وزارت ملنے کے بعد جناب شیخ ” پھل دار “ درخت کا کردار ادا رکر تے نہ صرف اپنی سیاسی قد کاٹ میں اضافہ کر تے بلکہ حکومت کی گرتی پڑتی سیاسی اور انتظامی ساکھ کو بھی اوپر لے جانے کی سعی کر تے ، ہو ا مگر کیا ، وزیر داخلہ بننے کے بعد جناب شیخ کے لب و لہجے سے وہی حزب اختلاف والی تلخی کا عنصر نما یاں طور پر جھلک رہا ہے ، سیاست کے طالب خوب جانتے ہیں کہ وزارت داخلہ کا شمار حکومت کے چند اہم ترین وزارتوں میں ہوا کر تا ہے ، ایک کلیدی مسند وزارت پر تشریف فر ما ہو نے بعد جناب شیخ کے طر ز تکلم میں وہی ” بے نیازی “ کا جادوسر چڑ ھ کر بول رہا ہے ، حزب اختلاف پر لفظی گولہ باری تو جناب شیخ کی گھٹی میں شامل ہے خیر سے اب انہوں نے اپنے زیر سایہ فرائض سرانجام دینے والوں کے بارے میں ایسا بیان داغ دیا ہے جس پر ہر طبقہ فکر باقاعدہ آگ بگولا ہے لگے دنوں اپنے مطالبات کے لیے دھر نا دینے والے سرکار کے ملا زمین پر آنسو گیس کے استعمال پر جس طر ح سے جناب شیخ نے لب کشائی فر مائی ، کیا ایک ذمہ دار حکومتی وزیر سے ایسے بے سروپا بیان کی تو قع باندھی جاسکتی ہے ، گر گٹ کی طر ح رنگ بدلنا تو کو ئی ہمارے سیاست دانوں سے سیکھے ، یہی مکر م جب ” سڑک “ پر تھے اس وقت کے ان کے پر مغزمکالمے کس طر ح کے ہوا کر تے تھے ، مسلم لیگ ن حکومت کے خلاف ٹی وی شو کھیلنے والے شیخ رشید کلا م کا آغاز مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی ” خبر گیری “ سے کر تے اور اپنے کلا م کا اختتام غریب کی شان میں شاندار قصیدہ پڑ ھنے پر کر تے ، مسلم لیگ ن کے اقتدار کے دنوں میں عوامی جذبات کے ترجمان کے طور پر جا نے مانے اور گردانے جا تے تھے جس ٹی وی چینل پر جناب شیخ جلو ہ گر ہوتے عوام کی اکثریت ضروری کام کاج چھوڑ چھاڑ کر ان کے فر مو دات سننے بیٹھ جا تے ، حزب اختلاف کے دنوں میں جناب شیخ عوام کا درد سمجھنے والے اہم ترین سیاست دان ما نے جاتے تھے ،جس طر ح سے پنڈی کے شہزادے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کو عوام دشمن ثابت کر تے اور عمران خان کو ایک امید نو کے طور پرپیش کر تے ، شیخ رشید کی انہی ” اداؤں “ نے انہیں عوام میں مقبولیت کی ساتویں آسماں پر پہنچادیا تھا ، اقتدار میں آنے کے بعد مگر جناب شیخ کے دل و دماغ سے غریب کی دکھن ایک ” پٹی فلم “ کی طر ح یک دم اتر گئی ، وزیر کبیر بننے کے بعد ان کے لہجے میں عوامی درد کی جگہ کر وفر تمسخر اور عوام سے بے نیازی نے لے لی ہے ، جس تکبر بھر لے لہجے میں جناب شیخ حزب اختلاف کی گو شمالی کر تے ہیں جس طر ح سے عوامی طبقات کے مسائل پر طنز بھرے جملے اچھا لتے ہیں ، بے اختیار عوام کے لبوں پر یہ جملہ مچلنے لگتا ہے کہ آسماں رنگ بدلتا ہے کیسے کیسے ، بہت سے احباب جناب شیخ کے حالیہ رویے کو دیکھ کر پوچھتے ہیں کیا یہ ہمارے غم میں گھلنے والے وہی صاحب ہیں ، ہٹو بچو کے شغل میں جس طر ح سے آج حکمران سب کچھ بھول بیٹھے ہیں عین اسی طرح کا طرز عمل مسلم لیگ ن کے عہد میں مسلم لیگ ن سے جڑے مہر بانوں کا بھی ہوا کرتا تھا جس طر ح آج کے حکمرانوں سے اپنے ” عہدے “ سنبھالے نہیں جا رہے عین اسی طرح سابق حکمرانوں سے بھی اپنے ” عہدے “ نہیں سنبھا لے جا رہے تھے اگر نوازشریف بد یس رخصت ہو سکتے ہیں ، یاد رکھیں آج نہیں تو کل کو چہ اقتدار سے آج کے حکمرانوں نے بھی بے دخل ہو نا ہے ، ما ضی میں بھی بہت سے کروفر کا لباس تن پہ سجا ئے اقتدار میں آج مگر لوگ ان کے نام تک بھول گئے عہدوں سے پیار کر نے والوں کی خدمت اقدس میں بس اتنی سی عرض ہے عہدوں سے پیار کر نے کے بجا ئے عوام سے پیار کر نے کو وطیرہ بنا ئیے ایسا نہ ہو کل کلا ں عوام بھی سابق ہو نے والوں کی طرح آپ کو بھی بھول جا ئیں اگر سیاست میں نام کما نا ہے پھر عہدوں پر صدقے واری ہو نے کے بجا ئے پر عوام پر صدقے واری ہو نے کو شعار بنا ئیے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :