”تازیانہ“

منگل 23 فروری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

 حالیہ ضمنی انتخابات پر طر ح طر ح کے سوالات اٹھا ئے جا رہے ہیں مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومتی جماعت پر الزامات کی بو چھاڑ کا نہ رکنے والا سلسلہ چل سو چل ہے جواباً تحریک انصاف کی جانب سے بھی اپنی ہار پر ‘ ‘اگر مگر“ طرز کی تاویلیں پیش کی جارہی ہیں ضمنی انتخابات کے جاری اس ”ملا کھڑا “ میں کو ن سچا ہے کو ن جھوٹا درحقیقت کس سیاسی جماعت کی حق تلفی ہو ئی کس جماعت کی جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا اور کس جماعت کی ہار کو جیت میں تبدیل کر نے کے لیے نادیدہ قوتوں نے اپنا جادو دکھا یا ، اوپر کے سطور میں عرض کر دہ نکات سے شاید کبھی صحیح معنوں پر د ہ سرک سکے، خلق خدا کی دوربیں نظروں سے اگر حالیہ نتائج کو جانچنے کی کو شش کی جا ئے ممکن ہے کہ اس قضیے کے بارے میں کسی نتیجہ پر پہنچا جاسکے ، جہاں تک پنجاب کی بات ہے کو ئی مانے نہ مانے تمام تر سیاسی اتار چڑ ھا ؤ کے باوجود پنجاب میں مسلم لیگ ن مو جود ہے اور اچھے بھلے انداز میں مو جود ہے جن احباب کا خیال ہے کہ پنجاب سے مسلم لیگ ن کا بوریا بستر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گول ہو چکا مسلم لیگ ن کے مخالف اان احباب کے فرمان سے صداقت کی بو نہیں آتی ، پر ویز خٹک کی وجہ سے بالعموم خیبر پختون خواہ اور بالخصوص نو شہرہ تحریک انصاف کا سیاسی قلعہ گردانا جاتا ہے مگر شومئی قسمت کہ نو شہر ہ کی نشست تحریک انصاف حکومت میں ہو تے ہوئے ہار گئی ، نو شہرہ کی نشست ہارنے میں جہاں بیگانوں کا جا دور سر چڑ ھ کر بولا وہی تحریک انصاف کے گھر کے بھیدی نے بھی تحریک انصاف کو پٹا نے میں خوب کر دار ادا کیا ، سچ کیا ہے ، نو شہرہ میں مقابلہ تحریک انصاف کا تحریک انصاف سے تھا ظاہر ہے کہ اس صورت حال کا نتیجہ تحریک انصاف کی مات صورت میں ہی نکلنا تھا ، ملین ڈالرز کا سوال کیا ہے ، یہ کہ عوام کی مسترد کر دہ مسلم لیگ ن پھر سے عوام میں پذیرائی حاصل کر نے کی راہ پر کیوں گامزن ہے ، کل تلک جس سیاسی جماعت کی جمہوری آمریت سے عوام تنگ آچکے تھے آج پھر اسی جماعت کی جانب عوام کیوں ما ئل بہ کر م ہیں ، اگر چہ حکومت کے زعما ء ماننے کے لیے تیار نہیں لیکن تحریک انصاف اپنے تین سالہ اقتدار میں عوام کی امنگوں کو اس طر ح حقیقت کا روپ دینے سے قاصر رہی جس کی توقع عوام تحریک انصاف سے لگا ئے بیٹھے تھے ، تحریک انصاف حکومت کی مقبولیت پر قدغن لگا نے میں دو عوامل نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ، گرانی وہ مسئلہ ہے جس سے ہر امیر غریب یکساں متاثر ہے ، عوام سے لگ کھا نے والے اس اہم تر معاملے میں تحریک انصاف بر ی طر ح سے ناکام نظر آئی ، اشیا ء ضروریہ کی کو ئی ایسی شے نہیں جس کی قیمت میں روزانہ بنیاد پر بڑھوتری نہ ہو رہی ہو ، پیٹ کی آگ بجھا نے والی جتنی بھی اشیاء ہیں ان کی نر خوں میں انصافین حکومت کے عہد میں ہو ش ربا اضافے نے عوام کی کمر تو ڑ کر رکھ دی اور ہنوز یہ سلسلہ سر عت سے جاری ہے ، گرانی پر قابو پا نے میں ناکامی نے عوام اور تحریک انصاف میں ” فاصلے “ پیدا کر دیے ہیں جناب خان جس نظریہ کا پر چار کر کے اقتدار میں آئے تھے ہو ش ربا گرانی نے جناب خان کے نظر یہ کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے دوسرا اہم عنصر جس نے تحریک انصاف حکومت کی نیک نامی کو شدید زک پہنچائی وہ افسر شاہی کا ” مر ہٹہ پن “ ہے وفاق اور صوبوں میں انصافین حکومت کے سایہ عاطفت میں فرائض سرانجام دینے والی افسر شاہی مادر پدر آزاد ہے ، جس شعبہ کو کنگالیں افسر شاہی خالصتاً اپنی مر ضی اور منشا کی مالک بن کر فیصلے صادر کررہی ہے لگے تین سالوں میں افسر شاہی کے بے لگا م ہو نے کی وجہ سے قانون کا نفاذ اور قانون پر عمل در آمد محض خواب بن چکا ہے اوپر سے لے کر نچلی سطح تک افسر شاہی کوقانون قاعدے اور ضابطے کی رتی برابر پرواہ نہیں ، سرکار کے ہر محکمہ میں افسران ” راجہ اندر “ بنے بیٹھے ہیں ، انتظامی سطح پر گویا ” رنگیلا پن “ کا چلن عام ہے انتظامیہ کی اس رنگیلا شاہی طرز عمل کی وجہ سے عام آدمی کے مسائل جو ں کے توں ہیں بلکہ نو بت یہاں تک پہنچ چکی کہ عام آدمی کے جائز کام بھی نہیں ہو رہے کسی بھی سرکاری محکمہ کے دفتر جا ئیے افسر شاہی عام آدمی کے مسئلے کو سنجیدہ طور پر سننے تک کے لیے آمادہ نہیں ، جہاں تک عوامی نما ئندوں کا تعلق ہے بہت سے حلقوں میں عوامی نما ئندے عوام کے جذبات و احساسات سے قطعاً بے نیاز ہیں خال خال عوامی نما ئندے اگر عوام کے مسائل کے حل کے لیے افسر شاہی کی ” کا ن شما لی “ کر تے بھی ہیں دبنگ افسر شاہی ان عوامی نما ئندوں کو گھا س ڈالنے سے گریزاں ہے یعنی انتظامی سطح پر نفسا نفسی کا چہار سو راج ہے اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ کو ئی باز پرس کر نے والا نہیں ، تحریک انصاف کے احباب ضمنی انتخابات میں ہو نے والی سبکی کے داغ کو ” اگر مگر “ کے تاویلوں سے رفع دفع کر نے میں لگے ہو ئے ہیں ، اصل واقعہ یہ ہے کہ گرانی اور بد انتظامی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے جناب خان کی حکومت اور عوام کے ” رومانس “ میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے ، کاش جناب خان ضمنی انتخابات کے نتائج اور عوام کے احساسات کو مد نظر رکھ کر عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ” ہٹلر“ کی روش اپنا لیں ورنہ تحریک انصاف حکومت میں بڑھتی بد نظمی اور گرانی جناب خان کی بائیس سالہ محنت شاقہ کو دیمک کی طر ھ چاٹ لے گی ، باقی جناب خان بادشاہ ہیں اور بادشاہ ذرا کم ہی کسی کی سنتے ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :