ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کا قصہ اپنے انجام کو پہنچ چکا لگے کئی دنوں سے دو بڑی سیاسی جماعتوں کی ” ناک “ کا مسئلہ آخر کار کنارے لگ گیا ، قانون کی پاسداری کی رٹ لگا نے والوں نے چابک دستی دکھلا کر وجہ نزاع بننے والے ڈسکہ کے حلقے کا فیصلے الیکشن کمیشن سے کروالیا ، کیا ڈسکہ میں ہونے والے انتخاب میں جو واقعات رونما ہو ئے وہ پہلی بار ہو ئے ، ہمارے ہاں انتخابات کی پہچان ہی دراصل ایسے واقعات ہیں ، 88ء کے بعد جب سے جمہوریت کا راج قائم ہو ا اس کے بعد جتنے بھی انتخابات ہو ئے ان میں لاٹھی گولی کے واقعات تواتر سے رونما ہو تے رہے ، دنگا فساد ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو نے کے واقعات سے انتخابات کا رنگین ہو نا معمول سمجھا جا نے لگا ، دھاندلی کس الیکشن میں نہیں ہو ئی، جہاں زور چلا وہاں” زور “ سے کا م لیا جا تارہا ، جہاں پیسے کی چمک کام آسکتی تھی وہاں پیسہ پھینک الیکشن جیت کا گر استعمال کیا گیا جہاں دھو نس سے نتائج اپنے نام کر نے کے امکانات روشن ہو تے وہاں دھونس کی لاٹھی چلا کر من پسند نتائج حاصل کیے جاتے رہے ، وطن عزیز میں ہو نے والے کسی بھی الیکشن کو کامل طور پر شفافیت کا تمغہ نہیں دیا جاسکتا ، وطن عز یز کے انتخابات ہو ں اور اس میں قانون کے حاکم دھو نس اور دھا ندلی کے ہنر بروئے کار نہ لا ئیں بھلا ایسے کیسے ممکن ہو سکتا ہے ، این اے 75ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں بھی جیت کے ” خو گروں “ نے وہی آزمودہ گر استعمال کیے دونوں حریفوں نے حصہ بقدر جثہ نتائج کو جیت کا لبادہ پہنانے کی ہرو ہ کو شش کی جو ان کی بس میں تھی ، دونوں سیاسی حریفوں کی اسی رسہ کشی نے اس ضمنی انتخاب کو متنازعہ کے درجے پر فائز کر دیا ، سیاست کے دونوں حریفوں کی خوش نصیبی ملا حظہ کیجیے کہ چند دنوں میں الیکشن کمیشن نے انصاف ان کے ہتھیلی پر رکھ دیا ، عموماً یہاں تو ہارنے والے امید وار کو پنچ سالہ ختم ہو نے کے بعد انصاف ملا کر تا ہے ، بات صرف دھا ندلی اور دھو نس تک ہی محدود نہیں اصل سوال یہ ہے کہ وہ کو ن سے ہا تھ تھے جنہو ں نے ڈسکہ انتخاب میں من پسند نتائج حاصل کر نے کے لیے سارے معاملہ کو الجھا یا ، کس کس نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفا داری میں نام کما نے کی سعی کی ، کس کس نے اپنے فرائض کو پس پشت ڈال کر اس انتخاب میں کو ئلوں کی دلالی میں اپنے ہاتھ پو رے کے پورے کا لے کیے ،کیا اس طر ح کے ” گر “پاکستان کے انتخابی تاریخ میں پہلی بار ڈسکہ انتخاب میں استعمال ہو ئے ، جی نہیں پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات میں ہا تھوں پر دستانے پہننے والوں نے اس ہنر کو آزمایا ، تکلیف دہ امر کیا ہے ، ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے واویلے کے باوجود ان چہروں سے پر دہ کبھی سرک نہ سکا ، الیکشن کمیشن نے اگر چہ ڈسکہ کے حلقے میں ہو نے والے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا معاملہ مگر یہاں پر ختم نہیں ہوتا ، اصل کہانی تو اب شروع ہو ا چاہتی ہے ، ضروری ہے کہ ڈسکہ کے انتخابی عمل کی شفافیت پر اثر انداز ہو نے والوں کو نہ صرف یہ کہ سامنے لا یا جا ئے بلکہ ان عناصر کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے بات چل نکلی ہے تو اب الیکشن کمیشن اسے منطقی انجام تک بھی پہنچا ئے ، بلد یاتی انتخابات ہو یا قومی انتخابات دھا نسو قسم کی انتظامیہ کی موجودگی کے باوجود نہ صرف یہ کہ انتخابات میں دھو نس دھا ندلی کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں بلکہ اریب قریب ہر الیکشن کئی قیمتی جانوں کو بھی ”کھا تا“ رہا ہے، جب انتظامیہ کی فوج ظفر موج ہر پو لنگ اسٹیشن کے باہر لشکارے مارتی ہے، لشکا رے مارتی انتظامیہ کی مو جو دگی میں اگر طاقت کے نشے میں چور طاقت کے سر خیل نتائج پر اثر انداز ہونے میں کا مران ہو تے ہیں ،عیاں سی بات ہے پھر انتخابی عمل کے ذمہ دار اداروں پر سوال تو اٹھیں گے اور پوری شدت سے اٹھیں گے ، ماضی کو کنگالا جا ئے تو طاقت وروں کی ایسی لڑا ئیوں میں الیکشن کمیشن عام طور پر ” ماٹھے پن “ کا کردار ادا کر تا رہا ہے ، اب کے بار مگر الیکشن کمیشن نے ثابت کر نے کی کوشش کی ہے کہ الیکشن کمیشن واقعی الیکشن کمیشن ہے ، یہ سوال اپنی جگہ کہ پورے حلقے کے انتخابی عمل کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ صائب ہے کہ نہیں ، بہر طور ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں الیکشن کمیشن کم از کم یہ باور کروانے میں کامیاب ہوا کہ اگر الیکشن کمیشن چاہے تو انتخابات کے عمل میں شفافیت لا سکتا ہے ، جس طر ح سے طاقت سے لیس حریفوں کو ایک اہم ترین ادارے نے محض چند دنوں میں انصاف فراہم کردیا کا ش وطن عزیز کے ”گاموں ماجھو ں“ کو بھی ملکی ادارے اسی سر عت سے انصاف فراہم کر نے کی خو اپنا ئیں ، طاقت کے دو استعاروں کے پاس دولت اور وسائل کی فراوانی تھی سو دونوں حریفوں نے اپنے اپنے وسائل کو جھونک کر انصاف اپنے نام کر دیا اگرعام شہر یوں کی داد رسی کے لیے بھی حکومت کے مصاحبین اور حکومتی ادارے اس طرح کی فر ض شنا سی دکھلا ئیں ، دیکھ لیجیے اس ملک میں اوپر سے نیچے تک قانون کی سر بلندی کا جادو ایسے بولے گا کہ بھلے مانسوں کو یقین تک نہ آئے گا ،چلیے شروعات تو ہو گئیں آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔