پاکستا ن کی ہر سیاسی جماعت میں صرف ” میں “ کا چلن عا م سی بات ہے اوپر کے درجے سے شروع ہو نے والی ” میں “ کا تسلسل حلقوں کی سیاست تک میں عام ہے کارکن اپنے حلقے کے ممبر کی قربت حاصل کر نے کے لیے ہزاروں جتن کر تے ہیں ، ان ” حیلوں “ میں سے ایک آزمودہ نسخہ دوسرے کارکنوں کو ” صاحب “ کی نظروں میں گرانے کی بھی ہے یعنی سیاسی اوطاقوں میں ” کھینچا تانی “ سیاست کا اب حسن کہلا تا ہے عین اسی طرح کا کھیل بالا ئی سطح پر کھیلا جاتا ہے اور خوب جم کر کھیلا جاتا ہے ، تمام سیاسی جماعتوں میں ” میں “ کی دوڑ معمول کی بات بن چکی مگر باقی ماندہ سیاسی جماعتوں میں چونکہ ” مو روثیت “ کا غلبہ ہے سو ” نمبردار “ بننے کے خواب دوسری جماعتوں میں کم از کم نہیں دیکھے جاتے ، تحریک انصاف کا معاملہ مگر عہد حاضر کی سیاسی جماعتوں سے خاصا الگ تھلگ ہے ، جناب خان کا خاندان چو نکہ تحریک انصاف میں ” سیاسی میراث “ کی دوڑ میں شامل نہیں سو تحریک انصاف کا ہر دھا نسو رہنما خود کو خان کا سیاسی وارث سمجھتا ہے دراصل جہا نگیر ترین کے لیے اسی ” نکتہ آفریں “ نے مسائل پیدا کر رکھے ہیں ، خان ترین دوستی نے جب ذاتی قربت کا روپ دھا را اس کے بعد تحریک انصاف میں اغلب امکاں یہی ظاہر کیا جارہا تھا کہ خان کا دایاں بازو جہا نگیر ترین ہے حال اور مستقبل میں کیا ہوگا ، تحریک انصاف میں ترین کی بڑھتی سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ تحریک انصاف میں مو جود ترین کے ” بھا ئیوں “ سے برداشت نہ ہو سکی ، جہا نگیر ترین کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے والوں نے ترین اور خان میں دوریاں پیدا کر نے کے لیے اپنے اپنے گر استعمال کر نے شروع کر دیے ، تحریک انصا ف میں جہا نگیر ترین کے لیے وہ کڑا دن تھا جس دن ترین نا اہلی کی سولی چڑھے بس جیسے ہی ترین نااہل ہو ئے ادھر ترین کا پتا کا ٹنے کے لیے ان کے مخالفین نے دن رات ایک کر دیا ، خان کے وزارت عظمی پر متمکن ہو نے کے بعد درپر دہ ترین کے خلاف محلا تی سازشوں کو ہوا دینے کا سلسلہ تیز تر ہو تا چلا گیا ، پہلے پہل جہا نگیر ترین کو جماعتی سیاست سے دور کر نے کی راہ اپنا ئی گئی ، ترین کے خلاف جو کھیل شروع ہوا ترین اپنے خلاف چلنے والے ہر چال سے آگاہ رہے انہیں مگر اپنے یار غار پر بھروسہ تھا کہ خان کے ہو تے ہو ئے ان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہو سکتی ، سیاست کے اتار چڑھا ؤ سے خوب آگاہ ترین کے مخالفین سب سے پہلے ترین کی کردار کشی کے لیے سر گرم ہو ئے اپنے دوستوں کے ذریعے ترین کے خلاف خبریں ” لیک “ کروائی گئیں ، جب ترین کی کردار کشی سے بھی ترین کے مخالفین کو ” مطلوبہ نتائج “ نہ مل سکے اس کے بعد ترین کو دوسری طر ح سے ” فکس“ کر نے کا سلسلہ شروع کیا گیا ، بلند حوصلے اور ٹھنڈے دماغ کے مالک ترین پہلے تو حالات کے بہا ؤ پر تیرتے رہے ، ترین کا پارہ اس وقت چڑھا جب ترین کو ” پنجر ے “ میں ڈالنے کا معاملہ سر سے اوپر ہو نے لگا یہی وہ مو ڑ تھا جہاں سے جہا نگیر ترین نے ” شدید ترین “ کا روپ دھا رنے کا فیصلہ کیا جیسے ہی جہا نگیر ترین نے اپنی سیاسی اہمیت کے پتے شو کیے اس سارے معاملے میں تحریک انصاف کے ہمدرد جو پہلے ہی اس ” کھیل “ سے نالا ں تھے انہوں نے معاملات کو سدھا رنے کی سعی شروع کی دوسری جانب ترین نے اپنے خلاف عرصہ دراز سے سجے محاذ کو آر یا پار لگا نے کے لیے اپنے سیاسی تعلقات کو استعمال کر نا شروع کر دیا ، دل چسپ امر یہ ہے کہ جہانگیر ترین کو تحریک انصاف سے مکھن سے بال کی طرح نکالنے کے لیے ڈیڑ ھ ا ینٹ کی مسجد بنا نے والے دم بخود رہ گئے ، لمحہ مو جود کا سچ کیا ہے اگر ترین تحریک انصاف کو ” کڑی آزمائش “ میں ڈالتے ہیں یو ں سمجھیں کہ وفاق اور پنجاب کی حکومتیں ایسا بوجھ اٹھا نہ سکیں گی ، ملین ڈالرز کا سو ا ل مگر یہ ہے کہ وضع داری تحمل اور دوستی نبھا نے کے اوصاف سے لیس ترین تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وفاق اور پنجاب کو چلتا کر نے کے لیے اپنا کندھا پیش کر دیں گے ، جہانگیر ترین کے انتہا ئی قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ترین کی پوری کوشش ہے کہ جس سیاسی جماعت کے ” اٹھان “ میں ان کی محنت شاقہ شامل ہے اس جماعت کو ان کے کسی بھی اقدام سے نقصان نہ پہنچے ان ذرائع کا مگر یہ بھی کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف میں مو جود ان کے خواہ مخواہ کے مخالفین نے جہا نگیر ترین کی راہ میں اسی طرح روڑے اٹکا نے کا سلسلہ جاری رکھا شاید ” شدید ترین “ کا لبادہ اوڑھے جہا نگیر ترین پھر وہ قدم اٹھا لیں جس سے تحریک انصاف کا ” ٹائی ٹینک “ ڈوب جا ئے ، جہا نگیر ترین کے خلاف جنگاری بھڑ کا نے والوں کو تو شاید جناب خان اور تحریک انصاف کا بھلا منطور نہیں ، غیر جانب دار حلقوں کے مطابق تحریک انصاف کو کسی بڑے سیاسی نقصان سے بچانے کے لیے کپتان کو نہ صرف یہ کہ ترین سے جڑے معاملات پر کڑی نظر رکھنی ہو گی بلکہ کپتان کو ایسے ” دوستوں “ کو راہ راست پر لا نے کافریضہ بھی سر انجام دینا ہوگا کہ جن کی وجہ سے تحریک انصاف کی سیاست اور سیاسی طاقت میں دراڑ پیدا ہو نے کے اشارے مل رہے ہیں بہر طور آنے والے دن تحریک انصاف اور کپتان کے لیے حد درجہ اہم ہیں ایک جانب عوامی امنگوں کی وجہ سے انصافین حکومت کو سخت کو شی کا سامنا ہے دوسری جانب تحریک انصاف کے اندر برپا سیاسی زلزلے نے کپتان کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں ، کیا کپتان آنے والے دنوں میں پیش آمدہ نازک تر حالات سے کامرانی سے جاں خلاصی کا ساماں کر سکیں گے ، کیا جہا نگیر ترین اور کپتان میں پیدا دوریاں قربت میں ڈھل سکیں گی ان سوالوں کے جواب کے لیے آنے والے دنوں کا انتظار کر تے ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔