حسیں خواب و خیال اور سہانے سپنوں کے دن گزر چکے تین سال کے اقتدار میں کپتان نے اپنے ہنر کاری کا فن دکھا نا تھا ، ہنر کاری دکھلا نے کے وہ دن لد چکے اب کپتان کے سیاسی مخالفین انہی کے نعروں انہی کے وعدوں انہی کے فرمودات کو عمل کے پیمانہ میں تولنے پر تل چکے ہیں ، پی پی پی کے کمان دار بلا ل بھٹو نے جنوبی پنجاب میں میلہ سجائے رکھا اپنے ہر جلسے میں بلا ول اپنی بات کر نے کے بجا ئے کپتان کے ایک ایک وعدے کا جامع انداز میں تیاپانچہ کر تے رہے ہیں عین کچھ اسی پالیسی پر مسلم لیگ ن کے اعلی دماغ بھی گامزن ہوچکے ہیں ، مسلم لیگ ن سے وابستہ چند نامی گرامی ناموں نے لگے دنوں پنجاب حکومت کی کار کردگی پر خوب ہلا گلا مچا یا ، سیاسی مخالفین کا ایک دوسرے پر تبرہ بھیجنا چنداں حیرانی بلکہ پریشانی کی بات نہیں ، حکومت اور حزب اختلاف کا چولی دامن کا تعلق ہوا کرتا ہے حکومت وقت اپنے اقدامات اور پالیسیوں کو عوام دوست ثابت کر نے کے لیے دل کازور صرف کیا کرتی ہے جواب آں غزل کے طورپر حزب اختلاف حکومت کی اچھی بھلی پالیسیوں میں ایک نہیں بلکہ ایک سو ایک کیڑے نکال کر عوام اور حکومت میں دوری کا ساماں کیا کر تی ہے یہاں مگر معاملہ کچھ مختلف ہے پی پی پی کے رہبر اپنا اور اپنی جماعت کا چر چا کر نے کے بجا ئے کپتان کے عوام سے کیے وعدوں کو ایفا نہ ہو نے پر سیر حاصل بات کر رہے ہیں ، سچ بھی یہی ہے عوام سے براہ راست لگ کھا نے والے معاملات میں کپتان ایسا کچھ خاص کر گزرنے میں کامران نہیں ٹھہرے ، لفظی جنگ میں اپنا ثانی نہ رکھنے والی مسلم لیگ ن بھی کپتان کی گوشمالی میں مصروف ہو چکی ، انصافین احبا ب کو شاید ناگوار گزرے مگر کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے عوام کا سامنا اس وقت مشکل تر ہو جاتا ہے جب وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنا نے میں ناکام ہوتی ہے ، پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے احباب کپتان اور کپتان کے ساتھیوں پر صبح شام تنقید کے نشتر بر سائیں اس سے تحریک انصاف اورکپتان کا کچھ بگڑ نے والا نہیں لیکن جب سیاسی مخالفین بر سر اقتدار جماعت کے سربراہ کے اقوا ل اور پارٹی منشور کے بخیے ادھیڑ تی ہے دراصل مخالفین کی اس ” پر اثر “ تنقید کا جواب بر سر اقتدار حکمراں جماعت کے پاس نہیں ہوا کرتا ، ظاہر ہے کل کلاں عوام سے کیے گئے جن وعدوں کے بل پر جو تخت نشیں ہوتا ہے وہ اپنے کیے وعدوں سے کس طرح انکاری ہو سکتا ہے ، پی پی پی کے سربراہ نے حالیہ دنوں میں تحریک انصاف پر جو ” سیاسی ہاتھ“ رکھا ہے، تحریک انصاف کے کرم فر ماؤں کے پاس اس کا صائب جواب موجود نہیں ، گرانی ، بجلی و گیس کی قیمتوں میں پے درپے اضافہ روزگار کی فراہمی میں حکومت کا ” کھٹور پن “ سمیت بہت سے دوسرے عوامی وعدوں کی نامرادی کی بنا پر کپتان کی حکومت کو اس وقت سیاسی طور پر مصائب کا سامنا ہے ، کل تلک کپتان نے پی پی پی اور مسلم لیگ ن کو انہی عوامی وعدوں کے زور پر چاروں شانے چت کیا تھا ، آج کپتان کے وہی وعدے وہی دعوے انہیں عوام میں غیر مقبول بنا نے کا باعث بن رہے ہیں ، خدا لگتی یہ ہے کہ تین سالہ اقتدار کے بعد کپتان اور ان کی جماعت کی مقبولیت میں تیزی سے کمی ہو ئی ہے ، کینٹ انتخابات کی نظیر کو ہی لے لیجیے ، ایک حکومتی جماعت جس کے ہاتھ میں اختیار اور طاقت کا ہتھیار ہے اس کے باوجود عوام نے تحریک انصاف کے امید واروں کو مستر د کر کے حزب اختلاف کے امید واروں کو سر آنکھوں پر بٹھا یا اس کا سیدھے سبھا ؤ مفہو م کیا ہے یہی کہ عوام کپتان کی پالیسیوں سے نالاں ہے گر چہ حکومت کے بہت سے دوست ہنوز خوابوں کی دنیا میں بسیر ا کیے ہو ئے ہیں ، تحریک انصاف اور کپتان کے مخلص دوست اور ہم درد لیکن ساری صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے پا ئے جاتے ہیں ، حالیہ کینٹ انتخابات پر کپتان کے قریبی مخلص حلقے اچھے بھلے پر یشاں دکھا ئی دیتے ہیں ان کے خیال میں کینٹ انتخابات سے کپتان اور حکومت سے جڑ ے اعلی دماغوں کو اپنی ادا ؤ ں پر از سر نو غور کر نا چا ہیے ، غیر جانب دار حلقوں کے مطابق کپتان کے پاس اب بھی وقت ہے اگر اقتدار کے باقی ماہ و سال میں ہنگامی بنیادوں پر کپتان عوام کی اشک شو ئی کا ساماں کر لیتے ہیں اس صورت اگلے انتخابات میں تحریک انصاف قدرے بہتر طور پر اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ کر سکے گی ، کپتان کے وہ دوست جو انہیں باور کر رہے ہیں کہ اگلے پانچ سال بھی وزارت اعظمی آپ کے نام ہے صر یحاً کپتان کے ساتھ ” بائیں ہاتھ “ کا کھیل کھیل رہے ہیں، یار دوست کچھ ایسا ہی مشرف کو بھی کہا کر تے تھے لیکن مشرف کا پھر کیا انجام ہوا ، قوم کا بچہ بچہ جا نتا ہے ، بہار کے دنوں میں جو کپتان کے آگے پیچھے ہو رہے ہیں بس خزاں کی آمد کا سنتے ہی مو سمی پر ندوں نے اقتدار کی ٹہنی سے اڑ جا نا ہے ، کیا کپتان اور کپتان کے مخلص دوست اس حقیقت سے آشنا نہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔