”اجلے دامن والوں کی خدمت اقدس میں“

ہفتہ 6 نومبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

 عام طور سربراہ مملکت کے قوم سے خطاب کو عوام میں بھلے کا استعارا سمجھا جا تا ہے، وقت گز رنے کے ساتھ ساتھ اب یہ قدر بھی قریباً متروک ہو تی چلی گئی لگے دنوں ایک ایسی ہی تقر یر قوم کا نصیب بنی خدا لگتی یہ ہے کہ خان کے خطاب نے کسی حد تک پریشاں حال قوم کو مزید ہیجا ن میں مبتلا کر دیا ہے مخصوص طر ز کے لولی پاپ کے اعلان کا سیدھے سبھا ؤ مطلب یہ ہے کہ عوام کو رتی برابر عملا ً کچھ ملنے والا نہیں چند ایک اقدامات کے اعلان سر بازار کیے جانے سے عوام کی دکھو ں مداوا ممکن نظر نہیں آتا ، زمینی حقائق کے ترازو میں تولنے کے بعد آپ جان سکیں گے کہ یہ اقدامات محض خوش کن اعلانات سے زیادہ وقعت رکھتے ، جناب خان نے واشگاف الفاظ میں تیل مصنوعات کی نر خوں میں بڑھوتری کا عندیہ دیا ہے گھریلو گیس کے بحران سے بھی جناب خان نے بغیر لگی لپٹی پر دہ سرکا دیا ہے ، وطن عزیز کے کاروباری طبقے چاہے وہ پر چون فروش قبیلہ ہو یا کاروبار سے جڑے بڑے سیٹھ سبھی اپنے کاروبار کے ریل پیل کو تیل مصنوعات کی نرخوں سے نتھی کر تے ہیں ، جیسے ہی حکومت وقت کی جانب سے تیل مصنوعات کی نرخوں کو تیلی دکھا ئی جاتی ہے ، کاروباری طبقے کی گویا چاندی ہو جاتی ہے فوراً سے پیشتر ریڑ ھی بان سے لے کر تھو ک کے سیٹھ تک ، منڈی سے کا رخانے دار تک سب تیل مصنو عات کی نر خوں میں بڑھا وے کو جواز بنا کر اشیا ء ضروریہ کی قیمتوں میں من مر ضی اضافہ کر دیتے ہیں ، معیشت کے گورکھ دھندے کے بجا ئے عام قاری کی خدمت میں آساں لفظوں میں عرض کیا جا ئے سارے قصے کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ تیل مصنوعات کے نر خوں میں اضافے کے بعد ما چس کی ڈبیہ سے لے کر گاڑیوں کی قیمتوں تک میں خود ساختہ اور دل پسند اضافہ عوام کے منہ پر مار دیا جاتا ہے ، ذرا خود اندازوں کے گھوڑے دوڑا لیجیے جب آنے والے دنوں میں تیل مصنو عات کی نرخوں کو آگ لگے گی ، کیا حکومت کے ہاتھوں لگا ئے جا نے والی اس آگ کے بعد عوام کے لیے کسی آسانی کی امید باندھی جاسکتی ہے ، جواب تلخ سا ہے لیکن سچا ہے وہ یہ کہ آنے والے دنوں میں متوسط اور سفیدپو ش طبقے کو سانس اور آس کی امید برقرار رکھنے میں سخت کو شی کا سامنا کر نا پڑ ے گا ، جہاں ایک مخصوص آبادی کو حکومت کی جانب سے خال خال رعایت دینے کا اعلان ہے ، رعایت کے نام پر اربوں روپے ” اعداد و شمار “ کی ہیر پھیر تک ہی سمجھیے ، کمپنی کی مشہوری کی حد تک اگر عملا ً تھوڑی بہت جھلک دکھلا نے کی سعی کی بھی گئی اس صورت کیا ہوگا ، متوسط اور سفید پوش طبقہ رعایت کے حصول کے لیے درد ر پر خوار ہو گا ہر شہر ہر گاؤں گوٹھ میں لمبی لمبی قطاروں میں عام آدمی دھکے کھا ئے گا لیکن عام آدمی کے ہاتھ لگے گا کچھ نہیں ، لگے کئی سالوں سے رمضان بازار کے نام پر اربوں کھر بوں روپے ہر حکومت مختص کر تی ہے سوال مگر یہ ہے کہ ان مخصوص بازاروں سے کتنے فیصد عوام کا بھلا آج تک ہوا، محض رعایت کے نام پر ” اگر مگر “ طرز کی پالیسیوں سے آج تلک عوام کا صحیح معنوں کچھ بھی بھلا نہیں ہو سکا ، اس طرح کے حکومتی اعلا نات سے وزیر کبیر اپنے دلو ں کو دلا سہ تو دے سکتے ہیں لیکن عوام کے دلوں میں اپنے لیے جا بنا نے میں کبھی کامران نہیں ہوسکتے ، عوام کا درد سمجھنے والے حکمران عوام کی آسانی کے لیے خوش نما اعلا نات کرنے کے بجا ئے اپنے دل کا خون جلا تے ہیں ، عوام کی آسانی کے لیے ہر مشکل اپنے سر پر لیا کر تے ہیں ، طر فہ تما شا لیکن وطن عزیز میں یہ بر پا ہے کہ ہر حکومت اپنا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈال کر یہ جا وہ جا ہو جاتی ہے ، حال کے ساد ہ دل حکمرانوں کا قصہ بھی سابق حکمرانوں سے ملتا جلتا ہے بلکہ سابق حکمرانوں سے چند گام آگے کا ہے ، حسب سابق سلگتا ہوا سوال یہ ہے کہ حکمران خود تو عیش و ترب میں مست ہیں لیکن عام آدمی پر اپنے اللو ں تللوں کا بوجھ ڈالنے کے لیے کمر بستہ ہیں ، کب تلک عوام چار ٹانگوں والے جانور کی طر ح چپ سادھے حکمرانوں کا بوجھ اٹھا تے رہیں گے ، جو بھی حکمران اقتدار میں آتے ہیں ان کی زبا ں مبارک پر خزانہ خالی ہے کا نعرہ مستانہ رقص کر رہا ہوتا ہے ، کو ئی بھلے مانس حکمران تو بتلا ئے کہ ملکی خزانہ اگر عوام کے لیے خالی ہے پھر ان کے کھا توں میں اربوں کھر بوں کہاں سے آئے ، اس سوال کا جواب صاف چلی شفاف چلی کے نعرے بلند کر نے والوں کے پاس بھی نہیں ،مان لیتے ہیں کہ سابق حکمران ” رندوں “ کے قبیلے سے تعلق خاطر رکھتے تھے ۔

(جاری ہے)


حضور ! آپ تو ایمان دار ہیں دیانت آپ کی گھٹی پڑ ی ہے ، دھیلے کی لو ٹ کھسوٹ سے آپ کا دامن پاک ہے پھر اس پاک دامنی کے عہد میں عوام کا خون اس بے رحمی سے کیوں چو سا جا رہا ہے ، زمینی حقائق اتنہا ئی خوف ناک ہیں ، کچھ اس کا ادراک کیجئے بصورت دیگر اریب قریب دو سالوں کے بعد عوام جو کر نے کا ارادہ باندھے بیٹھی ہے وہ اجلے دامن کے دعوے دار حکمرانوں کے لیے کچھ زیادہ حوصلہ افزا ء نہیں ، باقی جو مزاج یار میں آئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :