”سیاست کے بالکے“

پیر 13 دسمبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

لیجیے پی ڈی ایم کے مہانوں نے حکومت وقت کے خلاف مارچ میں مارچ کر نے کا بگل پھر سے بجا دیاہے تسلسل سے خان حکومت کی رخصتی کی تاریخ دینے والے حزب اختلاف کے سر خیلوں نے مارچ میں مارچ کے ذریعے ایک بار پھر قوم کو خان حکومت سے جاں خلاصی کی نوید سنا دی ہے ، اس سے پہلے کہ زیب داستاں کو طول دیا جائے کل کے ق لیگ کے سر کے تاج اور آج کے مسلم لیگ ن کے مہاراج طلا ل چوہدری نے خان حکومت کی رخصتی ” چلمن“ سے پردہ سرکانے کا دعوہ کیا ہے ، مر کز میں حکومت اور حزب اختلاف کے ” بھر م “ میں لے د ے کر بس چند ممبران کا فرق ہے ، حزب اختلاف چا ہے تو چند ساعتوں میں جیت کو ہار اور ہار کو جیت میں بدل سکتی ہے ، تمام تر زمینی حقائق کے باوجود لیکن حزب اختلاف آخر آج تک چند سیاسی مہر وں کو کسکانے میں کیو نکر کامران نہ ہو سکی ، اس سوال کاجواب آج تلک حزب اختلاف دینے سے قاصر ہے ، پنجاب میں ” عددی کھیل “ مرکز سے بھی قدرے آساں ہے ، پنجاب کے سیاسی حالات جس طر ح سے گڑ بڑ جھالاکے طرز سے چل رہے ہیں حزب اختلاف کے لیے پنجاب میں بازی اپنے نام کر نے میں چنداں مشکل نہیں ،معاملہ آخر ہے کیا ، دراصل کارزار سیاست کے اندر خانے کچھ اپنے ” اصول “ ہوا کر تے ہیں ، سیاست داں عوام کے سامنے کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں درپردہ وہ کچھ اور چالیں چل رہے ہوتے ہیں ، اس ووقت بھی کچھ ایسے ہی سیاست چل رہی ہے بلکہ ہو رہی ہے ، بجا کہ حکومت عوامی امنگوں پر پورا اتر نے میں نامراد رہی ہے ، تصویر کا دوسرا رخ بھی عوامی مفاد کے لحاظ سے مگر چنداں حوصلہ افزا ء نہیں ، ایک تگڑی حزب اختلاف اگر چا ہتی تو روز اول سے عوامی مفاد کے باب میں حکومت وقت کے سامنے چٹان بن کر کھڑی ہو سکتی تھی ، لگے تین سالوں میں حکومت وقت نے کئی مر تبہ اپنے پا ؤں پر کلہاڑا مار کر اپنی رخصتی کا اچھابھلا ساماں کیا لیکن حزب اختلاف کے مہان ان ”اہم“ مواقعوں پر بھی زبانی جمع تفریق پر ہی گزر بسر کر تے رہے ، تازہ بہ تازہ پی ڈی ایم نے اب ایک اور مارچ کا شور و غو غا کر دیا ہے ، پہلا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مارچ میں مارچ ہو گااور اس سے جڑا دوسرا سوال یہ ہے کیا حزب اختلاف کا ” تگڑا سیاسی تکون “ خان حکومت کو گھر کے راستے پر ڈالنے میں با مراد رہوجا ئے گا ، تو سن لیجیے پی ڈی ایم کے سربراہ جناب مو لانا شد ت سے خان حکومت گرانے کے آرزومند ہیں حضرت مولانا خان حکومت کو ”نیچا“ دکھا نے کے لیے ہر حربے ہر وطیر ے کو اپنا نے سے چوکنے والے نہیں ، جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے ن لیگ کی اعلی قیادت اگر چہ خان حکومت سے جان چھڑا نا چاہتی ہے لیکن ن لیگ اس سارے معاملے میں ” اپنی وکٹ “ بچا کر دل کے ارماں پو رے کر نے کی پالیسی پر چل رہی ہے ، پی پی پی کا حال بھی کم وپیش مسلم لیگ ن سے اریب قریب والا ہے ، پی پی پی بھی خان حکومت کو چلتا کر نے میں ان ” حدود“ تک جانے سے گریز پا ہے جن ” حدود“ میں داخل ہو نے کے بعد اپنا بنا بنایا کھیل ” پر ایا “ ہو جا یا کرتا ہے ، اس تمام صورت حال میں ہو گا کیا ، حالات اور حزب اختلاف کی سوچ گر عین اسی دھا رے پر بہتی رہی پھر آنے والے دنوں میں بھی خان حکومت اسی طرح سے حزب اختلاف کی سینوں پر مونگ دلتی رہے گی اور جواباً حزب اختلاف بیاں در بیاں داغتی رہے گی جہاں تک عوام کی بات ہے، عوام حکومت اور حزب اختلاف کے درمیاں ” فٹ بال “ بنے رہی گی ، یعنی خان حکومت کو اگر کو ئی قبل از وقت رخصت کر سکتا ہے تو وہ خان صاحب کی اپنی ذات مبارک ہو سکتی ہے ، جناب خان اور ان کے قابل وزیر جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں کہیں نہ کہیں یہ امکان پا یا جارہا ہے کہ خان حکومت شاید خود اپنا بوجھ نہ اٹھا سکے ، اور اپنے ہی بوجھ تلے دب جا ئے، جہاں تلک دونوں طرف کے سیاست کے بانکوں کا تعلق ہے دونوں جانب کے سیاست دانوں کو عوام کی فکر کے بجا ئے اپنے مفادات کا تحفظ عزیز ہے،سو دھیرج رکھیے حالات جس طرح سے ہیں اسی طر ح ہی رہنے کی امید ہے، آنے والے دنوں میں قوم کی مقدر میں کیا لکھا ہے یہ آنے والے دن ہی عیاں کر یں گے ، فی الحال حکومت وقت کے روشن دماغوں اور حزب اختلاف کے تگڑے سر براہوں کے رنگین بیانات پر گزارہ کر نے کے سوا کوئی چا رہ نہیں سو اسی پر اکتفا کیجیے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :