” کوشش کرے وزیر تو کیا ہو نہیں سکتا “

منگل 21 دسمبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

ایک بات طے ہے کہ کو ئی بھی عہدہ اگر اہل فرد کو سونپا جا ئے تو اس کے انفرادی اور بالخصوص اجتماعی طور پر کار آمد اور دور رس نتائج نکلا کر تے ہیں مغرب کی ترقی کاراز اسی نکتے میں پنہاں ہے مغرب کی مادی تر قی کا راز پر کھ لیجیے وہاں قابلیت اور اہلیت پر رتی برابر سمجھو تہ نہیں کیا جاتا ، مغرب کی اسی ادا ئے دلبرانہ نے اسے ستاروں پر کمند ڈالنے کے قابل بنا یا ، الٹی گنگا بہنے والے دیس میں لگے بہتر سالوں سے اہلیت کے بجا ئے اقراباء پر وری کا سورج سوا نیزے پر رہا ہے ، شاذ ہی دیکھنے میں آیا کہ قابلیت کو مد نظر رکھتے ہو ئے حکومتی سطح پر عہدوں کی بندر بانٹ کی گئی ہو ، انصافین حکومت میں لیکن یہ معجزہ رونما ہو نا تھا سو ہوا ، پنجاب کی تاریخ میں شاید پہلی بار تعلیم جیسا اہم قلم دان تعلیمی شعبے سے جڑے فرد کے ہاتھ دیا گیا مراد راس سے پہلے سرکار کے سایہ عاطفت میں شعبہ تعلیم میں کیا چلن عام تھا ، کیسی کیسی پالیسیاں رواں تھیں لگے دو دہا ئیوں میں پنجاب میں خاص طور پر حکومتی سطح پر ایسے ایسے اقدامات کیے گئے کہ جن کا زمینی حقائق سے دور تلک کا واسطہ نہ تھا ، سابق حکمرانوں کی انہی الم غلم پالیسیوں کے نتائج یہ نکلے کہ طلبہ و طالبات ماشے جتنی تعلیم سے بھی محروم ہو تے چلے گئے ، مراد راس کے ہاتھ میں تعلیم کا قلم دان آنے کے بعد بہت سے ایسی پالیسیاں شعبہ تعلیم کا مقدر بنیں جن کے سربازار ہو نے سے کما حقہ شعبہ تعلیم میں ابتری سے بہتری کی شروعات ہو ئیں ، یکساں نصاب تعلیم پوری قوم کا دیرینہ مطالبہ تھا اس اہم تر نکتے پر تمام آنے والے حکمران سیاسی شعبدہ بازی دکھلاتے اور قوم کو بہلا تے رہے عملاً مگر حکمراں اس ” بھاری پتھر “ کو ہاتھ لگا نے سے گر یز پا رہے ، مراد راس نے یکساں نصاب کے نفاذ میں کیسی کیسی رکاوٹیں عبور کیں کیسی کیسی مشکالات کا سامنا کیا اس سارے معاملے میں موصوف گو یا چومکھی لڑائی لڑ تے رہے اور پوری دل جمعی سے لڑتے رہے ، آج ملکی تاریخ میں پہلی بار تعلیم کے ” ساہو کاروں “ کو چاروں شانے چت کر کے مراد راس پنجاب میں یکساں نصاب نافذ کر نے والے تعلیم کے غازی بننے کا اعزاز اپنے نام کر بیٹھے ، بجا طور پر مراد راس کو اس کا ر ہا ئے نما یاں پر لاکھو ں خون معاف کیے جاسکتے ہیں ، تعلیم کے شعبے میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دینے والوں کے لیے محکمانہ ترقی کا خواب سالانہ اے سی آر کی وجہ سے باقاعدہ عذاب بن چکا تھا ، اساتذہ کو محکمانہ ترقی کے لیے اے سی آر کے لیے جو پاپڑ بیلنے پڑ تے بس اسے کہاں تک سنو گے کہاں تک سنا ؤں کی الم ناک داستان سمجھ لیجیے ، اساتذہ اپنے اے سی آر کی تکمیل کے لیے در در کی ٹھو کریں کھا تے رہتے ، کئی عشروں سے اساتذہ اس ” درد سر “ سے جاں خلاصی کے لیے مطالبہ کر رہے تھے لیکن اس ” پر نالے “ نے اپنی جگہ رہنا تھا سو اساتذ ہ کے بار بار کے مطالبے کے باوجود سابق حکومتوں نے اسے حل کر نے کی سنجیدہ سعی کی ہی نہیں ، یہاں پر بھی مراد راس نے نیک نامی اپنے نام کرنے کی ٹھانی ، اے سی آر کے ” کاروبار “ کے خوگر یہاں بھی وزیر باتدبیر کے آگے کھڑ ے ہو ئے افسر شاہی نے بھی ڈھکے چپے انداز میں اے سی آر کے باب میں روڑے اٹکا نے کی اپنی تہی اچھی بھلی کوشش کی ، افسر شاہی کے ہر ” ضرب “ سے آگاہ مراد راس اس اہم معاملے میں بھی ڈٹ گئے اور اب انہی کے محنت شاقہ سے پنجاب بھر کے لاکھوں اساتذہ اپنے موبائل سے اے سی آر جمع کر نے کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں ، شنید ہے کہ اب اساتذہ کی محکمانہ ترقی کو شفاف اور ” گول مول “ چکر سے پاک کر نے کے لیے براہ راست ترقیوں کے خود کار نظام پر مو صوف دل کا خوں جلا رہے ہیں ، حق سچ یہ ہے کہ مراد راس نے پہلی بار حکومتی سطح پر نہ صرف شعبہ تعلیم کو وقعت دی بلکہ جہاں نظام تعلیم کو بہتر اور مو ثر بنا نے کے لیے اپنی کوشش جاری رکھے ہو ئے ہیں وہی اس شعبے میں فرائض سر انجام دینے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کر نے کے لیے بھی خلوص نیت سے سرگرم ہیں ، بہت سے ” در یا “ پار کر نے کے باوجود ہنوز مگر انہیں اب بھی مزید ” دریا “ پار کر نے ہیں ، جس طرح سے مراد راس اپنے قلم داں سے ” انصاف “ کر نے کے لیے دن رات ایک کیے ہو ئے ہیں عین اسی طرح اساتذہ بھی دل جمعی سے اپنے تدریسی فرائض سرانجام دے کر شعبہ تعلیم میں انقلاب بر پا کر نے میں اپنا حصہ ڈالیں ، چلتے چلتے بس اتنی سی گزارش اگر پنجاب کی طرح مرکز میں بھی انصافین حکومت کو چند ایک ایسے محنتی وزیر نصیب ہو تے تو آج خان حکومت کو عوام میں ” خانیوال “ جیسے سیاسی صدمات نہ سہنا پڑ تے ، مراد راس اپنے ہم عصر اور آنے والے وزراء کے لیے درخشاں نظیر قائئم کر چکے یعنی کسی بھی شعبہ کا وزیر چا ہے تووہ اپنے شعبے میں انقلاب بر پا کر سکتا ہے شرط صرف اپنے قلم دان سے انصاف کر نے کی ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :