عام خیال کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی سوِل حکومت یا پھر اشٹبلشمنٹ میڈیا ارکان یا ان کے اداروں سے پنگا لینے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی لیکن کسی بھی وجہ سے انہیں سزا دینے کے لیئے زیادہ سے زیادہ یا تو ان کو اشتہار دینا بند یا کم کر دیئے جاتے ہیں یا پھر سرکاری اشتہاروں کی ادائیگیاں روک دی جاتی ہیں۔
یہ ملک براہِ راست چار مارشل لاء بھگت چکا ہے اور بلا واسطہ بھی کئی برس غیر سیاسی قوتوں کی بالا دستی بھی برداشت کر چکا ہے لیکن جو ناقابلِ برداشت اور شرمناک سلوک قومی میڈیا کے ساتھ اس نام نہاد جمہوری دور میں روا رکھا جا رہا ہے،اس کے لیئے جتنے بھی سخت الفاظ استعمال کیئے جائیں کم ہیں۔
قومی میڈیا اور ارکان کے ساتھ جو حشر موجودہ دور میں ہوا ہے وہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا، کئی میڈیا ہاوسز کی ڈاؤن سائزنگ،بندش اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں میڈیا ارکان کے بے روزگار ہونے جیسے سنگین معاملات موجودہ حکومت کے ابتدائی ماہ کے کارناموں میں نمایاں ہیں۔
(جاری ہے)
قومی میڈیا کو نکیل ڈالنا پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ تھا جبکہ غیر جمہوری قوتوں کی بھی ایک عرصہ سے خواہش تھی،جس کا اظہار کئی مرتبہ عمران خان کے اسپانسرڈ کنٹینر سے کیا گیا تھا،جبکہ قومی میڈیا کو نکیل ڈالنے کے منصوبے کا آغاز اسی دورِ کنٹینر میں اسلام آباد میں جیو کے دفتر پر پتھراؤ کر کے کیا گیا تھا۔
چند ہفتے قبل پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس اور جنگ،جیو کے سربراہ میر شکیل الرحمان کو نیب کی جانب سے ایک چونتیس سال پرانے اور طے شدہ جائیداد کے مقدمے میں بلا جواز حراست میں لیا گیا اور گرفتار کیئے گئے دیگر اپوزیشن راہنماوں کی طرح ان کے خلاف بھی تا حال کسی قسم کی کرپشن کے ثبوت وغیرہ عدالت میں پیش نہیں کیئے گئے اور اطلاعات کے مطابق ان کی ضمانت میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔
میر شکیل کی گرفتاری پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ ہی نہیں بلکہ عمران خان کو اس ملک پر مسلط کرنے والی اشٹبلشمنٹ کے لیئے بھی باعث اطمینان بخش امر ہے۔ خان صاحب کو جیو پر ان کی حکومت کو آئینہ دکھانے کا غصہ تھا جبکہ اشٹبلشمنٹ نے قومی میڈیا کو فکس اپ کرنے اور مکمل طور پر اپنی ہاں میں ہاں ملانے کے لیئے ایک واضع اور بڑا پیغام دے دیالیکن اس تماتر محنت اور مشقت کے باوجود حکومت اور اشٹبلشمنٹ کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے اور اس کی وجہ سوشل میڈیا ہے جہاں سے اب بھی حکومت اور اشٹبلشمنٹ کو بھر پور طریقے سے آئینہ دکھایا جا رہا ہے۔
میر شکیل کی گرفتاری کے اس حکومتی اقدام سے جہاں دنیا بھر میں ملک کی رہی سہی عزت خاک میں مل رہی ہے اور تمام تر صحافتی اور انسانی حقوق کی عالمی تنظی میں اس بلا جواز گرفتاری پر مظاہرے، احتجاج اور سوالات اٹھا رہی ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بعد اب کل ہی نامور امریکی مفکر نوم چومسکی جنہیں دنیا بھر میں احترام دیا جاتا ہے، نے بھی میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے خلاف اس پٹیشن کی حمایت کر دی جس میں بتایا گیا ہے کہ”میر شکیل کو شفاف ٹرائل کے بغیر گرفتار کیا گیا، وہ معاملے میں حکام کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور یہ کہ میر شکیل الرحمان کو نیب کی جیل سے رہا نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے“۔
گویا اب سارا عالم جانتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی اپوزیشن راہنماوں کو جس طرح بلا ثبوتوں کے کئی،کئی ماہ جیلوں اور اذیت خانوں میں رکھا گیا اسی طرح اب حکومتِ عمرانیہ کو سچ اور حقائق دکھانے اور لکھنے والے میڈیا اور ارکان کو زیرِ اعتاب رکھا جا رہا ہے۔
چیئرمین نیب یاد رکھیں ان سے زیادہ معلومات بین القوامی میڈیا اور ادارے رکھتے ہیں،اگر میر شکیل غلط سمت میں کھڑے ہوتے تو انہیں کبھی بھی پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔
اَنا اور سیاسی انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے نا اہل اور بغض کے مارے حکمرانوں کو ئی بتائے کہ ان کی حکومت کی نالائقیاں اور بلنڈرز میڈیا کو دبانے اور اس طرح کے انتقام پر مبنی دیگر اقدامت سے نہیں چھپ سکیں گے۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ میر شکیل کی گرفتاری کے بعد قوم کو حقائق سے آگاہ رکھنے والے جنگ اخبار کو پڑھنے اور جیو ٹی وی کو دیکھنے والوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے، انٹر نیشنل میڈیا ویور شپ گراف یہی بتا رہا ہے۔
کوئی ان نا عاقبت اندیش حکمرانوں کو بتائے کہ ایسے بھونڈے ہتھکنڈوں سے سچ زیادہ قوت سے ظاہر ہوتا ہے اور نا اہلیاں اور نالائقیاں مذید عیاں ہوتی ہیں۔
البتہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بیرونی ممالک کے صحافتی حلقوں اور میڈیا کمونٹی میں، ملک کی جو تھوڑی بہت عزت رہ گئی تھی اسے مذکورہ حکومتی اقدام کے زریعے پاوں تلے روند دیا گیا ہے۔ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری سے اتنا نقصان خود انہیں نہیں ہوا جتنا کہ اِس ملک کو عالمی سطع پر ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔
اپنی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر اٹھائے گئے اقدامات اور اپنے سیاسی مخالفین اور سچ دکھانے والے میڈیا کو مزہ چکھانے کے چکر میں ملکِ پاکستان کا بیڑہ غرق اور مسلسل بدنامی کی جا رہی ہے لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں۔ کوئی اپنی نوکری کی توسیع پکی کرنے کے چکر میں ہے تو کوئی اپوزیشن کا نام مٹانے کے درپے ہے،تا کہ اس کا اقتدار کچھ عرصہ مذید قائم رہ سکے۔ بس یہ ہے ِاس حکومت کا مختصر بیانیہ، ملک کا بے شک ستیاناس ہوتا رہے۔
باقی جہاں تک جنگ جیو پر دباؤ کی بات ہے، ہم نے جب سے ہوش سنبھالا جنگ اخبار کو گھر آتے دیکھا،اب بھی آتا ہے۔ ہم آئندہ بھی جنگ اخبار پڑھتے اور جیو دیکھتے رہیں گے۔ جنگ گروپ پر حکومت کا کریک ڈاؤن کرنے پر یہ ہمارا بیانیہ ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔