"پراسرار لوگ"‎

اتوار 13 ستمبر 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

چند دن قبل ایک نجی کام کے سلسلے میں اسلام آباد جانا ہوا، واپسی کے لیئے9th ایوینیو پنڈورہ والا راستہ اختیار کیا،آئی جے پی روڈ سامنے آتے ہی سرخ سنگل پر گاڑی روکنا پڑی،جھٹ سے بھیک مانگنے والوں نے گاڑی کو گھیر لیاجن میں ایک نوجوان خواجہ سرا بھی تھا جو میری توجہ حاصل کر چکا تھا ،لیکن بھیک مانگنے والوں سے پرے ہٹ کے کھڑا تھا ۔

سگنل کے سبز ہونے میں ابھی کچھ ہی سیکینڈ باقی تھے کہ اس نے گاڑی میں لفٹ لینے کا اشارہ کیا جس پر میرے ساتھ بیٹھے دوست نے اسے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ جانے کو کہا جس پر مذکورہ خواجہ سرا گاڑی میں بیٹھ گیا اور ساتھ ہی انگریزی زبان میں شکریہ ادا کیا ۔ آواز،باڈی لینگوءج اور چہرے مہرے سے مجھے سو فیصد یقین ہو گیا کہ یہ اصل میں وہ نہیں جو لوگوں کو دکھائی دے رہا ہے ۔

(جاری ہے)


 بحرحال گاڑیوں کی بھیڑ سے زرا آگے نکل کر اس خواجہ سرا سے پوچھا کہ کہاں اترنا ہے جس پر اس نے بیس منٹ کے بعد اترنے کا کہ دیا،گویا میرے پاس اس کے بارے میں جانکاری کے لیئے محدود وقت تھا،اس لیئے بات کو گھومائے بغیر اس کی اصل حقیقت کے بارے میں پوچھ لیا،جسے آپ بھی جانیئے ۔ (یاد رہے مذکورہ خواجہ سرا، اس کے والد کانام اور اس سے متعلق دیگر معلومات یہاں ظاہر نہیں کی گئیں )
’’میرا نام سحرش ہے اور تعلق ضلع اٹک کے خوشحال اور زمیندار گھرانے سے ہے ۔

منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا ہوں ۔ میرے دیگر دو بھائی اور ایک بہن ہے ۔ ایک بھائی سی ایس پی افسر ہے،جبکہ ایک ڈاکٹر بھائی اسلام آباد پمس ہسپتال میں اور بہن پولی کلینک میں گائناکالوجسٹ ہے ،والد صاحب ریٹائرڈ سیشن جج ہیں اور ابھی حیات ہیں ۔ خاندان میں ’’ شرمندگی‘‘ کے باعث والدہ، والد صاحب اور بھائی، خدا تعالی کی جانب سے عطا کردہ میری’’ جنس‘‘ کے باعث بہت ذہنی دباءو شکار رہتے تھے اس لیئے جب پندرہ سال کا ہوا اور باہر آنے جانے لگا تو میں اُن کی’’ برداشت‘‘ سے باہر ہو گیا، سو رولپنڈی کے ایک فلاحی ادارے میں مجھے خدا کے آسرے پر چھوڑ دیا گیا جہاں سے تقریباً چند ماہ بعد ہی مجھے والدین کی مرضی سے میری موجودہ برادری والے مجھے اپنے پاس لے آئے ۔

میں اصلی خواجہ سرا تھا کوئی شوقیہ فنکارنہیں تھا اس لیئے مجھے میرے گرو نے بہت ناز و نام اور عزت سے رکھا ۔ اتنا کہ میرے اپنے گھر سے بھی زیادہ ۔ کئی مرتبہ خود بھوکا رہ کر مجھے اور دیگر ساتھیوں کی بھوک مٹائی، خود اچھا نہیں پہنا لیکن ہ میں اچھا پہنایا ۔ دس سال سے ایسے ہی سلسلہ جاری ہے ۔
مجھے اپنے گھر سے نکالے آج دس برس بیت چکے ہیں ، اس دوران کبھی بھی میرے گھر والوں نے میری خیریت معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی ۔

میرا سی ایس پی بھائی اسلام آباد میں تعینات ہے اور اکثر اسے اس کی سرکاری گاڑی میں آتے جاتے دیکھتا ہوں ۔ بحرحال میں اپنی زندگی سے مطمعن ہوں کیونکہ میرے خدا نے میری قسمت میں یہی لکھا ہے ۔
میرا دوسرا سوال خواجہ سرا کے روز مرہ معاملات سے متعلق تھا جس کا جواب میرے لیئے حیرت انگیز تھا اور جو کسی حد تک سچائی پر مبنی لگ رہا تھا ۔ ملاحظہ فرمایئے:
’’ میں پانچ وقت کا نمازی ہوں ،ہر سال باقاعدہ تراویح کے ساتھ پورے تیس روزے رکھتا ہوں ،غلط کاری کا دور سے بھی میرا تعلق نہیں اور نہ ہی مجھے کوئی ایسے کام کے لیئے مجبور کرتا ہے ۔

میرے ساتھ اور بھی کئی ایسے ہیں جن کا گناہ کے کام سے کوئی تعلق نہیں ۔ میں نے پرائیوٹ بی اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ہے اوردس سپارے بھی حفظ ہیں ۔ میں روزانہ کی بنیاد پر اپنے دوستوں کو پڑھاتا ہوں میری کلاس میں اس وقت کوئی بیس کے قریب خواجہ سرا طالبِ علم ہیں ، میں بھی اپنے بھائی کی طرح سی ایس پی افسر بننا چاہتا ہوں لیکن اب نہیں بن سکتا‘‘ ۔

میرے لیئے زیادہ خوشگوار حیرت اس بات کی تھی کہ اس خواجہ سرا نے آدھی سے زائد گفتگو انگریزی زبان میں بہترین تلفظ اور بغیر کسی گرامر کی غلطی کے کی ۔
میرا تیسرا سوال تھا کہ پھر چوراہوں پر بھیک مانگتے کیوں ہو،گویا ہوا کہ’’ چند مخیر لوگ ہماری مسلسل امداد کرتے ہیں جس باعث ہمارا دال دلیا چلتا ہے لیکن خلیفہ عمران خان نیازی کی حکومت میں مہنگائی اس قدر ہو گئی ہے کہ چولہا جلانا مشکل ہو چکا ہے اس لیئے گزر بسر کے لیئے مانگ تانگ لیتے ہیں ’’ ۔

اس سے پہلے کہ میں کوئی اگلا سوال کرتا اس سے سوال داغ دیا کہ میری والد کی جائداد میں میرا حصہ کروڑوں میں بنتا ہے جو ملنے کی امید نہیں پوچھنا ہے کہ کیا میرے والدین کے مرنے کے بعد ان کی بخشش ہو جائے گی ۔ اُس پراسرار خواجہ سرا کے آخری الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں کہ’’ اگر خدا نے خاندان میں کوئی خواجہ سرا پیدا کر دیا تو اسے گھر سے نکالنے سے پہلے مجھے مطلع کر دینا اس کی پرورش میں اور میرا گرو کر لے گا،یہ میرا موبائل نمبر ہے‘‘
ٹھیک بیس منٹ گزرنے کے بعد مذکورہ خواجہ سرا نے گاڑی روکنے کو کہا، شکریہ اد ا کیا اور پھر یہ جا وہ جا لیکن اس کی باتوں کی سچائی اس وقت آشکارا ہوئی جب کچھ ہی دیر بعد گاڑی کی پچھی نشست پر احتیاطً دیکھا تو سو سو روپے کے دو نوٹ پڑے تھے،میرے دوست نے خواجہ سرا کو پانچ سو روپے دیئے تھے جو شائد اس خواجہ سرا کی ضرورت سے زیادہ تھے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :