ایک توجہ طلب نقطہ‎

پیر 19 اپریل 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

نائین الیون کے بعد امریکہ افغان جنگ میں تقریباً 10 کھرب امریکی ڈالرز اور 2300 سے زیادہ امریکی فوجی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ۔ امریکہ کیسے چاہے گا کہ اس کے اس افغانستان سے نکل جانے کے بعد خطے میں امن ہو اور خطہ کے لوگ چین سے رہیں ۔ افغانستان میں بدترین خانہ جنگی کی ایک نئی لہر دیکھنے کے لیئے تیار رہیئے جس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے ۔

1980 کی دہائی میں بھی امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد خطے میں جس خون ریزی کا بازار گرم ہوا تھا وہ زیادہ پرانی بات نہیں اور اس خون ریزی اور دہشت گردی کے اثرات سے پاکستان ایک عرصہ تک بری طرح متاثر رہا ۔
1980 میں مختلف افغان گروپس نے اقتدار کے حصول کے لیئے ایک دوسرے کے خلاف جو اسلحہ اور گولہ بارود استعمال کیا تھا وہ وہی اسلحہ تھا جو روس جاتے جاتے از خود علاقے میں چھوڑ گیا تھا ۔

(جاری ہے)

اب 2021 میں امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا دوبارہ اعلان کیا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ خطہ میں خانہ جنگی کی پرانی تاریخ نہ دھرائی جائے ۔ اطلاعات کے مطابق اسلحہ اور گولا بارود کی بڑی کھیپ کو روسی حمایت یافتہ شمالی اتحاد اور مختلف طالبان دھڑوں میں پہلے سے ہی تقسیم کیا جا چکا ہے اوپر سے علاقے میں بھارتی بالا دستی کی امریکہ پالیسی سر اٹھائے کھڑی ہے اور افغانستان میں حد درجہ بھارتی مداخلت ایسے میں ہ میں کون کون سے محازوں پر پہرے دینا ہوں گے؟ ۔


کشمیر سیکٹر میں بھارتی افواج سر اٹھائے کھڑی ہیں ، ہمالیہ سے اونچا دوست ہمسایہ ملک چین ہمیں ایک فون کال پر ڈھیر ہو جانے کا طعنہ دے کر ایران سے پچیس سالہ دفاعی معاہدہ کر کے جا ملا ہے جبکہ موجودہ افغان حکومت کو ہمارے اوپر کسی قسم کا اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔ ہمسایہ ملک افغانستان میں پاکستان کی اب کیا اہمیت رہ گئی ہے؟ اس کا اندازہ اسی بات سے لگانا کافی ہو گا کہ ترکی کی میزبانی میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین استنبول کانفرنس کا انعقاد 24 اپریل سے 4 مئی کو کرنے کا علان کیا گیا ہے لیکن اس کانفرنس میں پاکستان کو دعوت نہیں دی گئی ۔


یہ وہی افغانستان ہے جو چند سالوں پہلے تک پاکستان کی دفاعی لائن کا کردار ادا کرتا رہا لیکن ہماری نیچے لیٹنے کی اور ڈبل گیم پر مبنی پالسیوں کی بدولت آج ملک خطہ میں تن تنہا کھڑا ہے ۔
اس حساس اور اہم نقطہ کی جانب تا حال حکومت اور پالیسی سازوں کی جانب سے کسی قسم کی حکمتِ عملی یا پالیسی سامنے نہیں آئی ۔ خدشہ ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی دھن میں کہیں ہم خود ہی کسی دیوار میں نہ چن دیئے جائیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :