چائلڈ لیبر کا خاتمہ ضروری ہے

جمعہ 27 نومبر 2020

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور سب بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ایک کامیاب ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نو عمر بچوں کی کثیر تعداد غربت اور گھریلو جاہلیت کا شکار ہو کر کھیلنے اور پڑھنے کی عمر میں مشقت شروع کر دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 12 ملین سے زیادہ بچے چھوٹی عمر میں پڑھنے کی بجاۓ محنت مزدوری پر مجبور ہیں۔

ان میں سے زیادہ تعداد لڑکوں کی ہے جن کی اکثریت دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔
ان میں سے اکثریت کو نامساعد حالات اور گھر والوں کی کفالت عمر سے قبل ہی بڑا بننے پر مجبور کر دیتی ہے اور وہ اپنے کندھوں پر کتابوں کا بوجھ اٹھانے کی بجاۓ کسی ورکشاپ کے اوزار اٹھاۓ پھرتے ہیں۔

(جاری ہے)

جب کہ اگر کوئ بچہ پڑھنا چاہے تو بدقسمتی سے اس کو ریاست اور معاشرہ بھی کوئ مدد فراہم نہیں کرتا۔

جیسے کہ اگر کوئ بچہ کسی کے گھر یا دوکان پر کام کر رہا ہے اور میں نے بالکل ذاتی طور پر کسی مالک کو نہیں دیکھا کہ اس نے بچے سے پوچھا ہو کہ بیٹا اگر تمہیں پڑھنے کا شوق ہے تو بتاؤ ہم تمہیں پڑھاتے ہیں، ساتھ ساتھ پڑھائ اور کام دونوں کر لو یا ہم کسی اور کو کام پر رکھ لیتے ہیں تمہاری تنخواہ کے برابر امداد گھر والوں کے لیۓ اور پڑھائ کا خرچہ ہم برداشت کریں گے۔


چھوٹے بچے جو کہ ورکشاپوں، ریسٹورانوں، لاری اڈوں، بھٹوں یا کسی اور دیہاڑی پر کام کرتے ہیں ان  میں سے بعض ریپ کا نشانہ بھی  بن جاتے ہے۔اس کی پرانی مثال سو بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کے قتل کرنے والا جاوید اقبال ہے جس کا کیس 1999 میں منظر عام پر آیا تھا۔اس کی تازہ مثال ڈارک ویب کا سرغنہ مجرم سہیل ایاز ہے جس کو عدالت نے بچوں سے زیادتی کر کے ان کی ویڈیوز بنانے کے جرم میں 3 دفعہ سزاۓ موت سنائ۔

اس درندے کا نشانہ بھی زیادہ تر گلی میں انڈے اور قہوہ بیچنے والے دیہاڑی دار بچے بنتے رہے۔
اسی طرح بعض اوقات بچے چھوٹی عمر میں سکول نہ جانے کی وجہ سے جب دیہاڑی لگانے جاتے ہیں تو وہاں غلط صحبت کی وجہ سے یا تو نشہ شروع کر دیتے ہیں یا پھر دھیرے دھیرے جرم کی دنیا میں نام کمانا شروع کر دیتے ہیں۔
ہر سال دنیا بھر میں 12 جون کو بچوں سے مشقت کے خلاف دن منایا جاتا ہے۔

اس دن پاکستان میں بھی مختلف سول تنظیمیں ریلیاں نکالتی ہیں مگر ان ریلیوں کے ختم ہوتے ہی اگلے دن سے ان میں شرکت کرنے والوں کی اکثریت نے اپنے بچوں کے اسکول بیگ اپنے گھروں میں کام کرنے والے چھوٹے بچوں کو اٹھواۓ ہوتے ہیں اور کہیں ان بچوں سے گھروں کی صفائ ستھرائ کرائ جا رہی ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے اس معاملے میں ہمارے علماۓ کرام اور سیاست دان سنجیدگی سے کوئ کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے۔

اس کی ایک وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ خود بھی ضرورت مند بچوں سے مشقت کراتے ہوں گے اس لیۓ معاشرے سے اس کو ختم کرنے کے سلسلہ میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہے۔
صاحب لوگوں کے گھروں میں ہر طرح کا عدم تحفظ مجبور بچوں کو منہ کھولے گھور رہا ہوتا ہے۔بیگم صاحبہ کی جھڑکیاں اور کبھی کبھار تشدد کا بھی انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔اپنی ہی عمر اور خود سے چھوٹے بچے ان پر ایسے رعب ڈال رہے ہوتے ہیں جیسے کے وہ زر خرید ملازم ہوں۔

تشدد کے معاملہ میں کچھ اس سے ملتا جلتا حال بھٹوں اور ورکشاپوں پر کام کرنے والے بچوں کا ہے جہاں ان کو استاد کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے،کام کے مقررہ اوقات کار اور اچھا معاوضہ بھی نہیں ہوتا۔غرض وہ بچے بچپن کی دہلیز پر قدم رکھے بغیر سیدھا ظالم سماج کی بھینٹ چڑھ کر علم کا شعور حاصل کیۓ بغیر جوان ہو جاتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ صرف اعلانات کرنے کی بجاۓ سختی سے بچوں سے مشقت کے قوانین پر عمل کرواۓ ویسے غربت اور جہالت اور نا انصافی کے خاتمے سے ہی چائلڈ لیبر کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔

ہم سب کو بھی بچوں سے مشقت یعنی چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیۓ اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ہم جہاں بھی کسی بچے کو مشقت کرتا دیکھیں اور اس پر ظلم ہوتا دیکھیں تو اس کے مالک، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں تک اپنی آواز پرزور طریقہ سے پہنچانے کی کوشش کریں۔
ہم سب کو محض دن منانے اور نعرے لگانے سے آگے بڑھنا ہو گا۔ہمیں خود بھی چائلڈ لیبر کی مذمت کرنا ہو گی اور دوسروں کو بھی اس سے روکنا ہو گا۔
حکومت کو اس سلسلہ میں اپنا کردار سنجیدگی سے ادا کرنا ہو گا کیوں کہ آج کے بچے پاکستان کا مستقبل ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :