اسلام آباد یا راولپنڈی

ہفتہ 9 جنوری 2021

Alamzeb Mujahid

عالم زیب مجاہد

ہماری ملکی سیاست کی بہت عجیب ہے۔ ہر دور میں جب بھی الیکشن ہوتے ہیں تو جو جماعت دوسرے نمبر پر آتی ہے وہ ہمیشہ دھاندلی کے الزامات لگاتی ہے۔ پھر وہی جماعت سال دو اپنے جلسے کر کر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ پھر دھرنے اور لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہیں۔ دھرنے اور لانگ مارچ تو ہر دور حکومت نہیں ہوتے ہی ہیں اور  حکومت اور عوام کے  لیے باعث تکلیف ہوتے ہیں۔

  دھرنے اور لانگ مارچ سے ملتا تو کچھ بھی نہیں ہے البتہ ملک کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ اگر فائدہ ہوتا بھی ہے تو صرف اسی جماعت کا جو دھرنے اور لانگ مارچ کر رہی ہوتی ہے۔ مگر دیکھا جائے تو آج تک جس جماعت نے بھی دھرنے اور لانگ مارچ کیے ہیں ان کے ہاتھ سواۓ رسوائی کے کچھ بھی نہ آ سکا۔ چاہے وہ طاہر القادری صاحب، ہوں  عمران خان ،مولانا اخادم حسین رضوی، مولانا فضل الرحمن، نواز شریف کسی کے ہاتھ میں کچھ نہ آیا۔

(جاری ہے)


دھرنے میں ہر جماعت کے ایک ہی مطالبات ہوتے ہیں بس مطالبات کی شکل اور بیانات مختلف ہوتے ہیں۔ آجکل جونسا بھی خبروں کا چینل لگاؤ وہی لانگ مارچ اور دھرنوں کی باتیں چل رہی ہوتی ہیں۔ میں جب بھی لانگ مارچ کا سوچتا ہوں تو مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ پھر سے لانگ مارچ کرتے کیا حاصل کر لیں گے۔  کیا پی ڈی ایم اتحاد کی جماعتوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اس کے بعد حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا؟   کہیں یہ لانگ مارچ استیفے اور دھرنے مریم نواز کی خواہش اور مولانا فضل الرحمن کی ضد تو نہیں؟  کیا مریم نواز صاحبہ کہ  اس بیانیہ  پر ان کی اپنی پارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہے؟  مریم نواز صاحبہ نے تو مرتضی جاوید عباسی اور سجاد عوان صاحب کو استعفی دینے کا کہا تھا مگر وہ دونوں تو اپنے استعفوں سے ہی مقرر گۓ تو اس سے مسلم لیگ ن کا کیا تاثر جاتا ہے؟  کیا واقع ہی میں ن لیگ استعفے دینا چاہتی ہے؟  مجھے نہیں لگتا کہ ن لیگ استعفے دے گی کیونکہ ن لیگ کی سینئر قیادت کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے کہ استعفے دینا بچگانہ حرکت ہے  اور اس سے ایک غلط روایت جنم لے گی اور پھر  ہر دور حکومت میں اپوزیشن یہ راستہ اختیار کر کہ حکومت اور ملک کے حالات خراب کرے گی۔


ن لیگ کے بہت سے اراکین مریم نواز کے اس بیانیہ سے اتفاق نہیں کرتے مگر مجبوری میں جی حضوری کر رہے ہیں۔ اب جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے استعفوں اور لانگ مرچ پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے تو ٹیم کافی مایوس دکھائی دے رہی ہے۔  اب ان کو سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں؟   اتحاد کو بھی نہیں توڑنا چاہتے اور حکومت کو بھی گرانا چاہتے ہیں۔  ایسے حالات میں مولانا نے ایک نئی بات کی جو بہت ہی خطرناک اور حیران کن ہے۔

  انہوں نے کہا ہے کہ لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کی جانب بھی موڑ سکتے ہیں۔  اس بات سے مولانا کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں کیا وہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو ہیڈکوارٹرز کے باہر دھرنا دینے کا سوچ رہے ہیں؟  کیا اس فیصلے میں باقی جماعتیں مولانا کا ساتھ دیں گی؟  اگر اس طرح کا  کوئی بھی دھرنا دیا گیا تو راولپنڈی میں موجود عسکری قیادت کا اس پر کیا ردعمل ہوگا جو ابھی تک خاموش دکھائی دے رہی ہے؟  اگر ایسا ہوا تو کوئی نہیں  جانتا کہ ملک کی سیاست کی جانب جائے گی۔


کیا مولانا فضل الرحمن عسکری قیادت کے سامنے یہ مطالبہ رکھیں گے وہ سیاست کے کاموں میں مداخلت سے گریز کریں۔ ان کے مطالبات کیا ہوں گے؟  مطالبات کا کیا طریقہ کار ہوگا حکومت تو اپوزیشن کے ساتھ گرینڈ ڈائیلاگ کرنے کی بات کو بھی نہیں مان رہی۔  ایسی صورتحال میں  پی ڈی ایم کی قیادت کیا فیصلہ کرے گی۔  میرا خیال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس فیصلے سے دور رہے گی کیونکہ وہ ایک نظریاتی جماعت ہے اور وہ اس فیصلے کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گی۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ پی ڈی ایم ا پنا پڑاؤ کس شہر میں ڈالے گی۔ کیا وہ شہر اقتدار ہو گا یار اس کے ساتھ موجود راولپنڈی؟    امید ہے کہ اپوزیشن اپنے ساتھ ساتھ ملک اور اس کے عوام کے بارے میں بھی سوچے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :