روس جاپان سرحدی تنازعہ

پیر 23 ستمبر 2019

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

جاپان جزائر کا ایک جھرمٹ ہے،جس کی زمینی سرحد کسی دوسرے ملک کے ساتھ نہیں ملتی ہے۔گزشتہ ہفتے روسی صدر ولادی میرپیوتن اور جاپانی وزیراعظم شنزوآبے کی روس کے مشرق بعید میں واقع شہرولادی واستوک میں ملاقات ہوئی۔دیگرامورکے علاوہ اس ملاقات کا بنیادی موضوع دوسری جنگ عظیم کے دوران روس کے زیرقبضہ چلے جانے والے جاپانی جزائر اوران کی ممکنہ واپسی تھا،ان جزائر کی تعدادچار ہے۔

جاپانی میڈیا کے مطابق یہ ملاقات بے نتیجہ رہی ،کہیں کہیں ناکام بھی کہاجارہا ہے۔حقیقت حال یہ ہے کہ ہم جسے جدیددنیاکہتے ہیں وہ کئی حوالے سے وہی عالم کہنہ ہے ،ہزاروں سال کے ارتقاء کے باوجودطاقت کی بالادستی کاآئین کچھ زیادہ تبدیل ہوتانظر نہیں آتاہے۔آج بھی تین ہزار سال پہلے چندرگپت موریا کے قانون”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“کے اصول پر ہماری دنیا کا نظام چل رہا ہے۔

(جاری ہے)

اب اقوام متحدہ سے معتبر ادارہ کون سا ہوگا؟اس ادارے کے پانچ مستقل ممبر زجن کے پاس ویٹوپاورہے ،وہ کون ہیں؟یقینایہ دوسری جنگ عظیم کے فاتح ممالک ہیں۔انہی ممالک نے نئی دنیااور اس کے اصول وضوابط طے کئے ہیں۔اگریہ پانچ ممالک دن کورات کہہ دیں تو باقی 195ممالک کے مانناپڑے گا کہ یہ رات ہے اور اگر سفید دن کوان میں سے کوئی ایک بھی ویٹوپاور کا حامل ملک کہہ دے کہ وہ ایسانہیں مانتاتوتمام دنیاکواس کی ضد کے آگے ہار مانناپڑے گی۔


ایسٹرن اکنامک فورم کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے جاپانی وزیراعظم روس پہنچے توان کی صدر پیوتن سے یہ27ویں ملاقات تھی،جس کاایجنڈاجاپانی جزائر کی ممکنہ واپسی تھی،دوسری جنگ عظیم جب خاتمے کے قریب تھی توموقع غنیمت جانتے ہوئے روس نے جاپان کے ان چار جزائر پر قبضہ جمالیا۔صدریلسن کے دور میں روس اور جاپان تصفیے کے قریب تھے۔صدربورس یلسن جدیدروس کے پہلے صدراور انتہائی کمزور حکمران تھے،آپ یلسن کوروس کایحییٰ خان کہہ سکتے ہیں۔

کچھ لے دے کروہ چارمیں سے تین جزیرے دینے پر رضا مند ہوگیا تھا،مگراس وقت امریکہ نے کھنڈت ڈال دی ،روس اور جاپان کے باہمی اچھے تعلقات اس کے لئے براشگون ہیں،دونوں ممالک کے امن معاہدے کی صورت میں امریکہ نے اعلان کیاکہ وہ اوکھی ناواکے جزیرے کو اپناحصہ قراردے دے گا،یادرہے کہ اس وقت بھی جاپان کے جزیرے اوکھی ناوامیں چھبیس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں،جاپان کی دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد یہاں سب سے بڑا امریکی اڈا رہا ہے۔

ولادی میر پیوتن کے برسراقتدار آنے کے بعد توگویادنیا ہی بدل گئی۔شروع میں تو اس نے صاف انکار کردیاکوئی جزیرہ واپس نہیں ہوسکتا۔بعدازاں1956کے سوویت جاپان معاہدے کی روشنی میں بات چیت کے آغاز پر آمادہ ہوا،جس میں دوجزائر کی واپسی پر سوویت یونین راضی تھا۔
روس اور جاپان کی مخاصمت کا ایک خوبصورت تاریخی پہلو جاپان میں اسلام کی آمداور پہلی مسجد کی تعمیر ہے۔

زارکی حکومت کے دوران 1905اورپھر1915میں روس کی جاپان کے ساتھ جنگ ہوئی۔1905کی جنگ میں تیس ہزار کے قریب روسی فوجی جنگی قیدی بنا لئے گئے۔ان میں عیسائیوں اوریہودیوں کے علاوہ ایک ہزارمسلمان فوجی بھی تھے۔اوساکاشہر کے قریب ان قیدیوں نے دوران اسیری مسجد کی تعمیر بھی کی تھی،ہوسکتا ہے ان سے تعمیرزبردستی کروائی گئی ہو ۔اس کا ثبوت جاپانی شہنشاہ کازارشاہی کولکھاگیاوہ خط بھی ہے جس میں قیدیوں سے حسن سلوک کاتذکرہ کرتے ہوئے شہنشاہ جاپان نے لکھاتھاکہ عیسائی ،یہودی اور اسلام کے پیروکاروں کے لئے چرچ،سینیگاگ اورمسجد تعمیرکروائی گئی ہے جس میں وہ آزادانہ عبادت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ روس کی نیم خودمختارریاست تاتارستان کے سابق گورنر یاشن سانح نے جاپان کی اس پہلی مسجد کے حوالے سے ایک مضمون لکھا ہے ،اس مضمون میں اس مسجد کی تمام تفصیلات درج ہیں۔بدقسمتی سے یہ مسجد اب معدوم ہوچکی ہے مگر مسلمان قیدیوں کی قبروں پر لگے کتبے اور قرآنی آیات اب بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔قبور کے قریب ایک یادگار مینار بھی تعمیرکیا گیاہے جس پر بائیبل اورتورات کے علاوہ قرآن کریم کی آیات مبارکہ بھی کنداں ہیں۔

یادرہے کہ جاپان کی روس پر فتح پانے کے موقع پر علامہ اقبال نے ایک مضمون لکھا تھاجس میں جاپان کو ایشیاء کاابھرتا ستارہ کہاگیاتھااور ملت اسلامیہ کے لئے قابل تقلید تحریرکیاتھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور جاپان کاامن معاہدہ توہوگیامگرروس اور جاپان قانونی طور پرابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔گرچہ شنزوآبے جاپان کی تاریخ کاسب سے طویل عرصہ حکمران رہنے والے وزیراعظم ہیں اور پیوتن گزشتہ بیس برس سے اقتدار میں ہیں،دونوں کی باہمی کیمسٹری بھی بہترین ہے،مگر مجھے یہ معاملہ حل ہوتانظرنہیں آرہا۔

اس کی وجہ ولادی میر پیوتن کا فوجی پس منظر ہے ،اس کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ ایک انچ بھی شائد جاپان کو نہیں دے گا۔ایک طرف تو روس بات چیت کررہا ہے دوسری طرف وہ ان جزائر میں اپنا عسکری اثرورسوخ بڑھارہا ہے ،عملی طور پر وہ اپناقبضہ مزید پختہ کرنے کے اقدامات کررہا ہے۔جاپانی وزیراعظم نے مشترکہ ترقیاتی منصوبوں کا خیال پیش کیا تھا، مگر اس بابت روس کی شرائط ایسی ہیں جنہیں پورا کرنا مشکل ہے ۔جاپان کے لئے ان جزائر کی اہمیت کوئی عسکری یا معاشی مفاد تک محدودنہیں ہے۔کل 6853جزائرپرمشتمل یہ دیس ہے،جن میں چار جزائرکے جمع یا منفی ہونے سے کیا فرق پڑتاہے ؟مسئلہ قومی حمیت کاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :