آؤ صلح کریں

بدھ 30 دسمبر 2020

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

بحثیت انسان ہم اس دُنیا میں ایک دوسرے کو رَنج و غم دینے اور جدائیاں پیدا کرنے کیلئے نہیں آئے بلکہ ہم تو آپس میں اِتفاق و محبت کے ذریعے تعلقات بڑھانے  کیلئے آئے ہیں جیسا کہ مولانا روم فرماتے ہیں:
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
’’یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کیلئے آیا ہے، توڑ پیدا کرنے کیلئے نہیں آیا‘‘۔


آج کل کہا جاتا ہے کہ اگر ایک جگہ دو آدمی لڑ رہے ہوں تو تیسرا  وڈیو بنا رہا ہوتا ہے۔تاکہ سوشل میڈیا پر ڈال سکے۔گھر ، گلی ،محلے ،گاؤں اور شہر سے اچھی اقدار کم ہو رہی ہیں  اور نت نئے فیشن اور رواج جنم لے رہے ہیں۔عدم برداشت بڑھ گئی ہے اور فیملی کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔طلاق اور خلعہ کی خبریں  عام ہیں اور عدالتوں میں ان کی لائیو کوریج  کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

خاص کر ہماری سیلیبرٹیز میں یہ مرض عام پایا جاتا ہے۔ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔بڑے بڑے ہرجانے کے دعوے تیار کئے جاتے ہیں۔اور عدالتوں کے چکر  لگانے پڑتے ہیں۔لیکن زیادہ تر کیسز میں معاملہ آخر بڑوں کی مداخلت یا والدین کی کوششوں سے حل ہوتا ہے۔لیکن اس دوران زیادہ تر چھوٹے بچے بہت متاثر ہوتے ہیں۔چائلڈ کسٹڈی کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

نان نفقہ اور دیگر اخراجات کی مد میں  معمولی خرچہ دیا جاتا ہے  اور جتایا زیادہ جاتا ہے۔ایک دوسرے کی برائیاں بیان کی جاتی ہیں اور فیملی کے ذاتی معاملات  اخبارا ت کی زینت بنتے ہیں۔اور بعض اوقات اچھے اور نیک خاندان کی لڑکیاں حالات کی تلخیوں کو نہ برداشت کرنے کی وجہ سے خود کشی  اور جنسی بے راہ روی کے راستے پر چل پڑتی ہیں ۔کیبل پر انڈین ڈراموں اور پاکستا نی ڈراموں میں خاندانی  معاملات میں ماڈرن اور لبرل شکل دکھائی جاتی ہے اور مختلف افئیرز کو عام روٹین میں لیا جاتا ہے اور اس کے خلاف بات کرنے والے کو دقیانوسی ذہن کا مالک سمجھا جاتا ہے۔

سو شل میڈیا کے استعمال نے اس امر میں  مزید اضافہ کیا ہے۔ہم نے دیکھا ہے کہ علیحدگی سے  لڑکی اور لڑکے والے دونوں خاندانوں کا سکون برباد ہو جاتا ہے اور کچہریوں کے چکر لگانے اور وکیلوں کی فیسیں دینے کے لئے قرض کا سہارا لینا پڑتا ہے جس سے بے سکونی اور تباہی کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور بعض صورتوں میں اگلی نسلوں تک بھی چلتا رہتا ہےہمارے کئی گھرانوں میں بیٹیاں ناراضگی کے بعد ماں باپ کے گھر میں رہتی ہیں اور بناوٹی عزت  اور انا کے باعث لوگ   صلح کی طرف نہیں جاتے۔

اسلام دین فطرت ہے ۔قرآن پاک اور احادیث مبارکہ  میں صلح سے متعلق  بہت سے احکامات ملتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا  نیک اور مستحسن عمل ہے  اس سے معاشرے میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ عزیزوں میں ، رشتہ داروں میں ، بھائیوں میں ، ہمسایوں میں  اور اہل محلہ کے ساتھ اگر کسی بھی جگہ پر کوئی تلخ کلامی، یا کوئی لڑائی جھگڑا ہو تو سب سے  بہترین عمل معافی کا ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد کا مفہوم ہے کہ صلح میں خیر ہے۔
سورہ حجرات میں ارشاد فرمایا گیا ’’اور اگر اہل ِایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔‘‘
اہل ایمان بھی تو آخر انسان ہیں۔ ان کے درمیان بھی اختلافات ہو سکتے ہیں اور کسی خاص صورت حال میں اختلافات بڑھ کر جنگ اور قتال تک بھی پہنچ  سکتے ہیں۔ جیسے کہ صحابہ کرام  رضی اﷲ عنہم کے دور  میں بھی بعض  درمیانی اختلافات جنگ کی شکل اختیار کر گئے تھے۔

چنانچہ اگر کہیں ایسی صورت حال پیدا ہو تو امت مسلمہ کے تمام افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متحارب فریقین کے درمیان صلح کروائیں۔ اگر مسلمانوں کے دو فریق آپس میں لڑ رہے ہوں تو باقی مسلمان خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے‘کیونکہ اگر ان کے درمیان صلح نہ کرائی گئی تو مسلمانو ں کی جمعیت اور طاقت میں رخنہ پڑے گا جس کی وجہ سے بالآخر مسلمانوں کی مجموعی طاقت اور غلبۂ دین کی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا۔

اس لحاظ سے کسی بھی ملک یاخطہ کے مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو ختم کرانا باقی مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔آج  ہم دیکھتے ہیں مسلم ممالک آپس میں بھی جنگیں کرتے ہیں اور غیر مسلم ممالک کی ریشہ دوانیوں کا شکار بھی ہوتے ہیں ،ایسی صورتحال میں نقصان مسلم امہ کا ہی ہے۔معاف کرنا ، صلح کرنا ، آپس میں متحد رہنے سے ہی ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

جہاں  اسلام میں صلح و یکجہتی کو بہت سراہا گیا ہے وہاں پر لوگوں کے درمیان لڑائی، فتنہ، فساد اور اختلافات پیدا کرنے والوں کے لئے سخت وعید ہے۔علمائے حق پر بھی لازم ہے کہ وہ اس امت میں اتحاد امت کا جذبہ پیش کریں۔ ہمارے معاشرے میں نکاح کا عمل مشکل بنایا گیا ہے اور اس میں بے جا نمود و نمائش  اور فضول خرچی شامل کر دی گئی ہے ۔جس سے ہمارے عام لوگ محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں حال میں ہی دو بڑی فیمیلیز کی شادی میں کروڑوں شاید اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں جس سے غریب لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے ایسے افراد اور ادارے ہونے چاہئیں  جو صلح اور مصالحت کا اپنا شعار بنائیں ۔ہمارے عدالتی نظام میں سول پروسجیر کوڈ  کے مطابق  متبادل تنازعات کا حل قانونی چارہ جوئی کے بغیر تنازعات کو حل کرنے کا طریقہ کار ہے ، جیسے  ثالثی یا گفت و شنید۔

یہ طریقہ کار عام طور پر سستا اور تیز تر ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ریٹائرڈ جج صاحبان اور سینئر وکلاء حضرات کو اس سلسلے میں اپنی مفت خدمات صدقہ جاریہ کے طور پر  پیش کرنی  چاہئیں۔کیونکہ ہمارے معاشرے میں مہنگائی، معاشی استحصال ، بر وقت انصاف کی عدم دستیابی، تعلیم کی کمی ، طبقاتی منافرت، امیر اور غریب کے طرز رہائش میں واضح فرق اور امن و امان کی ناقص صورتحال نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔

ایک غریب آدمی بڑی مشکل سے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے اس کی بیٹی اپنے  نئے گھر میں خوش و خرم رہے  لیکن تعلقات میں ناچاکی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں یہ نازک رشتے ٹوٹ جاتے ہیں جنہیں دوربارہ باندھنے میں بہت وقت لگتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے معاشرے میں طلاقوں کی شرح بڑھ رہی ہے  جس  سےخاندانی نظام بری طر ح متا ثر ہو رہاہے۔

مصالحت کے میدان میں قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن "آؤ صلح کریں"  کے نام سے اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔صلح جوئی کا یہ عمل کئی گھروں کو دوبارہ سے بسا چکاہے اور یہ کار خیر مفت انجام دیا جارہا ہے اور اہم کیسز کو قانونی کوریج بھی دی جاتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے اس مشن کو عام کیا جائے اور صلح کے پیغام کو تمام لوگوں اور سماجی بہبود کے اداروں  تک پہنچایا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :