خدشے ، اندیشے اور حقیقت

پیر 24 اگست 2020

Ammar Masood

عمار مسعود

گذشتہ چند ہفتوں سےاسلام آباد کے صحافتی اور سیاسی حلقوں میں ایک عجیب بحث زور پکڑ چکی ہے۔ جس کے مطابق پاکستان کے طاقتور حلقوں کا جی اب عمران خان سے بھر چکا ہے۔ وہ اس معاشی بدحالی سے نالاں ہو چکے ہیں اور اس حکومت سے نجات چاہتے ہیں مگر طاقتور لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت کو رخصت کیا گیا تو خان صاحب سخت ردعمل دکھائیں گے اور پشتون بیلٹ کے لوگوں سے مل کر مزاحمت کی آواز اٹھائیں گے۔

یہی اندیشے خان صاحب کی حکومت کی اب تک بقا کا سبب ہیں۔ اس  بحث  کی گونج اخباری کالموں سے لے کر اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں "ہوانا" کے سگار سلگاتی شخصیات سے ہوتی ہوئی حکومت  کے رات گئے "محفل" سجانے والے وزارء کے حجروں تک پہنچی۔ سب کے ذہنوں میں خان صاحب کےردعمل کا اندیشہ ایک بہت بڑی دلیل بن چکا ہے۔

(جاری ہے)

میں بہت احترام سے اپنے تمام فاضل دوستوں سے نہ صرف اختلاف کروں گا بلکہ اس مفروضے کو گمراہ کن اور مجذوب کی بڑ قرار دوں گا۔

میرے اس استدلال کے بنیادی نقاط یہ ہیں۔
کسی بھی سیاسی جماعت کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے کارکن ہوتے ہیں۔ خان صاحب نے گذشتہ دو سال میں وہ سب کچھ کیا جو ان کے کارکنوں کی سوچ سے متصادم تھا اب دل برداشتہ کارکنوں پر نہ کرپشن کا نعرہ کارگر ہے نہ مذہبی کارڈ ان پر اثر دکھا رہا ہے۔ نہ سمندر پار پاکستانی اب حق میں رہے ہیں نہ ملک کے طول عرض میں تبدیلی کا نعرہ گونج رہا ہے ۔

  تحریک انصاف کے کارکنان پر شدید مایوسی کی گرد چھائی ہوئی ہے۔  پی ٹی آئی کے یہ مخلص کارکنان ایک دفعہ تو دھوکہ کھا سکتے ہیں مگر دوسری دفعہ "نئے پاکستان" کا فریب ان کو نہیں دیا جا سکتا۔  یاد رکھیں جب مزاحمت کی گاڑی اقتدار میں آ کر سمجھوتہ ایکسپریس بن جائے تو ہاتھ میں تاسف کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ کارکن نہ ہوں تو قیادت مذاق بن جاتی ہے۔

تہمت کہلاتی ہے۔ تمسخر اڑواتی ہے۔
خان صاحب اپنے تمام تر مخلص ساتھیوں اور پی ٹی آئی کی اصل قیادت کو اپنے آپ سے دور کر چکے ہیں۔ انکے پاس اب ہوس اقتدار کے سوا اب کوئی نعرہ نہیں بچا۔ خان صاحب سے کسی بھی قسم کی مزاحمت کی توقع اس لیئے عبث ہے کہ اب نہ ان کے پاس پی ٹی ائی کے کارکنان بچے ہیں نہ پارٹی قیادت میں کوئی بڑا نام ان کے ساتھ ہے۔ تنہا لوگ اکیلے بیٹھ کر اپنی غلطیوں پر ماتم تو کرسکتے ہیں مزاحمت کی تحریک نہیں چلا سکتے۔

ثبوت کے طور پر خان صاحب اس وقت ملک کے کسی بھی صوبے میں اپنے زور بازو پر کوئی جلسہ تو کر کر دیکھ لیں، ایک جلسے میں حکومت کی ساری کارکردگی، سب دھونس دھاندلی، سارا کروفر، واضح ہو جائے گا۔
یہ مفروضہ کہ کہیں اقتدار سے رخصت کے بعد  خان صاحب پشتون بیلٹ کے لوگوں کو ساتھ ملا کر کوئی بڑی مصیبت نہ کھڑی کر دیں اس لئے غلط ہے کہ پٹھان دوستی اور دشمنی میں بہت کھرے لوگ ہوتے ہیں۔

وہ اپنے ساتھ احسان کرنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور اپنے ساتھ دھوکہ کرنے والے کوبھی کبھی نہیں بھولتے۔ اس بات کی گواہ کے پی کے کی تاریخ بھی ہے۔ جو کچھ عمران خان نے ہمارے پشتون بھائیوں کی مزاحمت کےساتھ کیا ہے، جو دھوکہ انکو دیا ہے اسکے بعد کے پی کے وزارء اپنے حلقوں میں داخل نہیں ہو سکتے تو یہ توقع کرنا کہ وہ لوگ اب ایک دفعہ پھر عمران خان کے جھانسے میں آکر کسی مزاحمت کی تحریک کی سربراہی ان کو سونپ دیں گے سوائے حماقت کے کچھ نہیں ہے۔


ایک دلیل یہ بھی دی جا رہی ہے کہ مقتدر حلقے پارلیمنٹ میں سے ہی کوئی تبدیلی چاہتے ہیں مگر اس پر عمران خان راضی نہیں ہیں۔ یہ دلیل اس لئے بودی ہے کہ ہمارے سامنے اس ملک کی ساری تاریخ ہے کیا آج تک کسی بھی برسراقتدار حکمران کی منشا سے اپنے ہاں کبھی کوئی تبدیلی آئی ہے؟ کتنی آئینی جمہوری اور منتخب حکومتیں بس یونہی چلتا کر دی گئیں۔ کتنے منتخب وزراء اعظم بس الزامات کی بنا پر برخواست کر دیئے گئے۔

کسی کے ردعمل کے بارے میں کبھی نہیں سوچا گیا۔ خان صاحب کو تو مبینہ طورپرسلیکٹ کیا گیا ہے یہاں الیکٹڈ لوگوں کا کبھی زور نہیں چلا تو کیا ایک سیلیکٹڈ کے خدشات کو اتنی توجہ دی جائے گی؟ اتنا غورو فکر کیا جائے گا ؟
یہ بھی کہا گیا کہ اس وقت ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور خزانہ خالی ہے اس لئے ملک نئے انتخابات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ یہ بات اس لئے غلط ہے کہ تاریخ گواہ ہے دنیا کے چند ایک جمہوریت پسند ممالک میں عین حالت جنگ میں بھی انتخابات ہوئے ہیں۔

یہ اس لئے ہوا کہ جمہوریت میں اگر عوام اپنی قیادت سے خوش نہیں ہیں تو انہیں ہر حال میں اپنی پسند کی قیادت کو منتخب کرنے کا حق ہے۔ اخراجات کی مد میں سب سے اہم خرچہ انتخابات کا ہے ۔ کیونکہ یہ ملک کے عوام کو انکی پسند کی قیادت لوٹاتا ہے۔ خالی خزانے کی دلیلیں دینے والیں اس بات کو سمجھیں کہ جمہوریت میں، موجودہ حالات میں، انتخابات کا پرچہ اختیاری نہیں لازمی ہے۔


میرے ناقص خیال میں یہ خدشہ بالکل بے معنی ہے کہ خان صاحب کا اقتدار ختم ہونے کے بعد انکا ردعمل کیا ہو گا؟ بلکہ بسا اوقات ان لایعنی بحثوں سے یوں لگتا ہے کہ یہ اندیشہ نما مفروضہ طاقتور حلقوں کے ذہنوں میں تخلیق کیا جا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ طاقتور حلقوں کو اس وقت چار بنیادی خدشات ہیں ۔ ان کو خوف ہے مریم نواز کے جلسوں سے ۔ ان کو خوف ہے مولانا فضل الرحمن کے آخری اور حتمی دھرنے سے ۔

ان کو خوف ہے نواز شریف کی واپسی سے اور ان کو خوف ہے بدحال عوام کے غیض و غصب سے۔
آج کل ماحول ایسا ہے کہ مکمل بات نہیں کی جا سکتی۔ لکھنے والے ادھوری باتوں اور علامتوں کا سہارا لے کر مدعا بیان کر رہے ہیں۔ طاقتور لوگوں سے ایک ادھوری گذارش پر بات ختم کرتا ہوں۔ پاکستانی قوم عجیب قوم ہے۔ آپ بڑی سے بڑی غلطی کرکے اگر اپنی غلطی پر معافی مانگ لیں، اپنے کیئے پر ندامت کا اظہار کر لیں تو یہ قوم بڑی فراخدلی سے آپ کو معاف کر دیتی ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی غلطی پر مصر رہیں اور اس کو دوہرانے کی کوشش کریں تو یہی قوم تاریخ میں آپ کو بدترین ناموں سے پکارتی ہے۔  بس طاقتور حلقوں سےیہی عرض کرنا تھا۔  باقی رہے نام اللہ کا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :